الیکشن کمیشن، پنجاب میں انتخابات کیلئے گورنر سے مشاورت کیوں کر رہا ہے؟ چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 15 فروری 2023
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کے لیے گورنر سے مشاورت کیوں کر رہا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف اراکین کی طرف سے دائر درخواست پر سماعت کی۔

عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی درخواست غیر مؤثر ہونے کی وجہ سے خارج کردی۔

دوران سماعت پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا تذکرہ ہوا جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکس دیے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کے لیے گورنر سے کیوں مشاورت کر رہا ہے۔

انہوں نے الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل برائے قانون محمد اشرف سے استفسار کیا کہ شاید لاہور ہائی کورٹ نے کمیشن کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے متعلق احکامات دیے تھے۔

اس پر الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر قانون محمد اشرف نے آگاہ کیا کہ الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے مشاورت کی ہے، گورنر سے ملاقات کے منٹس ابھی وصول نہیں ہوئے، معاملے پر گورنر پنجاب شاید قانونی راستہ اپنائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کے لیے گورنر سے کیوں مشاورت کر رہا ہے، جسٹس عائشہ ملک نے ریماکس دیے کہ آپ کو انتخابات کے لیے مشاورت کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شاید ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو گورنر سے مشاورت کا حکم دیا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہائی کورٹ کا حکم ہے تو پھر الیکشن کمیشن مشاورت کرے۔

سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے منحرف اراکین کی درخواستیں غیر مؤثر ہونے پر خارج کر دیں۔

بعدازاں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ان ریمارکس کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات آگے کرنے اور آئین کو پامال کرنے کی سازش کافی حد تک ناکام بنا دی گئی ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ اگر الیکشن کمشنر اب بھی احکامات سے روگردانی کریں تو پھر ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

منحرف اراکین کا معاملہ

خیال رہے کہ 23 مئی 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار چوہدری پرویز الہٰی کے بجائے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت میں ووٹ دینے والے 25 منحرف اراکین کی صوبائی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کے ریفرنس پر اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔

اعلامیے کے مطابق پنجاب اسمبلی کی عمومی نشستوں پر منتخب ہونے والے 20 اراکین، خواتین کی مخصوص نشستوں پر 3 اور اقلیتی نشستوں پر براجمان 2 اراکین کی رکنیت ختم کردی گئی تھی۔

الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں صغیر احمد، ملک غلام رسول سنگھا، سعید اکبر خان، محمد اجمل، عبدالعلیم خان، نذیر چوہان، محمد امین ذوالقرنین، نعمان لنگڑیال، محمد سلمان نعیم، زوار حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرہ بتول، محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گِل، عظمیٰ کاردار، ملک اسد علی، اعجاز مسیح، محمد سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم، فیصل حیات کی صوبائی اسمبلی کی رکنیت ختم کردی گئی تھی۔

خیال رہے الیکشن کمیشن کی جانب سے 20 مئی کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کی حمایت کرنے والے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ دیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی روشنی میں فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا تھا، تاہم تحریک انصاف کے منحرف اراکین پنجاب اسمبلی تاحیات نااہل قرار نہیں دیا گیا تھا۔

ان میں سے متعدد اراکین کا تعلق جہانگیر ترین گروپ، علیم خان گروپ اور اسد کھوکھر گروپ سے تھا۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد منحرف اراکین اسمبلی کے وکیل خالد اسحٰق نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہو سکتی ہے اور قانون کے مطابق 30 دن میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ 90 دن میں اپیلوں پر فیصلہ کر سکتی ہے تاہم اپیلیں دائر کرنے کا فیصلہ مشاورت کے بعد ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے 17 مئی کو ریفرنس پر اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹوں نے حمزہ شہباز کو اکثریت حاصل کرنے میں مدد دی تھی، انہوں نے مجموعی طور پر 197 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ سادہ اکثریت کے لیے 186 ووٹ درکار تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں