صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کے معاملے میں صدر کا کوئی کردار نہیں، الیکشن کمیشن

اپ ڈیٹ 19 فروری 2023
سی ای سی نے کہا کہ کمیشن انتخابات کے حوالے سے اپنی آئینی ذمہ داری سے بخوبی واقف ہے — فائل فوٹو: اے پی پی
سی ای سی نے کہا کہ کمیشن انتخابات کے حوالے سے اپنی آئینی ذمہ داری سے بخوبی واقف ہے — فائل فوٹو: اے پی پی

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے صدر مملکت عارف علوی کو دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کی تاریخوں کے اعلان میں ان کا کوئی کردار نہیں اور کمیشن اس حوالے سے اپنی آئینی ذمہ داری سے بخوبی واقف ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے صدر کو لکھے جوابی خط میں کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے مطابق جب صدر کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحلیل کیا جاتا ہے تو وہ آرٹیکل 224 کی شق کے مطابق الیکشن کے لیے تاریخ اور نگران کابینہ کا تقرر کرے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اسی طرح جہاں ایک صوبے کا گورنر آرٹیکل 105 (3) (اے) کے تحت صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرتا ہے تو وہ اسمبلی کے عام انتخابات کی تاریخ مقرر اور نگراں کابینہ کا تقرر کرے گا‘۔

چیف الیکشن کمشنر کے خط میں صدر کی توجہ آرٹیکل 218 (3) کے تحت انتخابات کے انعقاد کے لیے کمیشن کی آئینی ذمہ داری کی طرف مبذول کرائی گئی۔

خط میں صدر کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان پر بھی اعتراض کیا گیا اور کہا گیا کہ صدر کا عہدہ سب سے بڑا آئینی ادارہ ہے اور صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، جبکہ دیگر تمام آئینی اور قانونی ادارے کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ صدر مملکت کے عہدے کا انتہائی احترام کریں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ’ہمیں یقین ہے کہ یہ غیرجانبدار ہے اور اس باوقار دفتر سے دیگر آئینی اداروں کی پدرانہ رہنمائی کی توقع رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ایسے دیگر آئینی اداروں سے مخاطب ہوتے ہوئے الفاظ کا بہتر انتخاب کیا جائے گا‘۔

کمیشن کا جواب صدر کی جانب سے اسے لکھے گئے پہلے خط کے 10 روز اور دوسرے خط کے ایک روز بعد سامنے آیا، دوسرے خط میں صدر نے چیف الیکشن کمشنر کو عام انتخابات کی تاریخ سے متعلق مشاورت کے سلسلے میں 20 فروری کو ایک ہنگامی اجلاس کے لیے مدعو کیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر کو لکھے اپنے خط میں صدر نے کمیشن کی جانب سے ’بے حسی اور بے عملی‘ پر ناراضی کا اظہار کیا تھا جس نے ان کے پہلے خط کا جواب نہیں دیا۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ وہ بے چینی سے انتظار کر رہے تھے کہ الیکشن کمیشن آگے بڑھ کر اپنی آئینی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس کے مطابق کام کرے گا، لیکن اس اہم معاملے پر کمیشن کے بے حس انداز سے وہ انتہائی مایوس ہوئے۔

چیف الیکشن کمشنر نے اپنے خط میں کہا کہ کمیشن بغیر کسی دباؤ اور خوف کے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔

خط میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) کی صوبائی اسمبلیاں بالترتیب 14 جنوری اور 18 جنوری کو تحلیل کی گئی تھیں، جس کے بعد ای سی پی نے دونوں صوبوں کے گورنرز سے رابطہ کیا اور ان سے عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنے کو کہا اور 29 جنوری کو انہیں یاد دہانیاں بھی بھیجی گئیں۔

خط میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور تین فریقین کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں کا حوالہ دیا گیا، جس پر ای سی پی کو 10 فروری کو گورنر پنجاب کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد کرنے اور انتخابات کی تاریخ طے کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

جوابی خط میں مزید کہا گیا ہے کہ 14 فروری کو الیکشن کمیشن کے سیکریٹری، اسپیشل سیکریٹری اور ڈائریکٹر جنرل (قانون) نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی جنہوں نے انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے معذرت کا اظہار اور قانونی فورم سے رجوع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد اور انتظامات کی اپنی آئینی ذمہ داریوں سے پوری طرح واقف ہے اور اس سلسلے میں تمام ضروری اقدامات اٹھائے گئے ہیں، یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ آئین کے آرٹیکل 48 (5) اور 105 (3) میں صدر اور صوبے کے گورنر کا کردار واضح طور پر درج ہے۔

خط میں زور دیا گیا ہے کہ آئین، الیکشن کمیشن کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ اسمبلی کے تحلیل ہونے کی صورت میں اس کے عام انتخابات کی تاریخ طے کرے۔

سی ای سی نے کہا کہ اگر آئین ساز اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کے اختیارات کمیشن کو دینے کا ارادہ رکھتے تو آئین کے آرٹیکل 48، 58، 105 یا 112 میں واضح طور پر اس کا ذکر ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے آئین کی مختلف شقوں کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمیشن انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے گورنر سے مشاورت کرے۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب سے ملاقات کے بعد مزید رہنمائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں دیوانی متفرق درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا جس پر لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے دفتر نے اس بنیاد پر اعتراض کیا ہے کہ معاملے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور دیوانی متفرق درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کے قابل نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں