دہشت گردی کی نئی لہر: حکومت، اپوزیشن کے سینیٹرز کے ایک دوسرے پر سنگین الزامات

21 فروری 2023
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم، پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ محمد زئی خان اور وقار مہدی نے تقاریر کیں—فوٹو: اسکرین گریب
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم، پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ محمد زئی خان اور وقار مہدی نے تقاریر کیں—فوٹو: اسکرین گریب

ملک کے ایوان بالا کے گرما گرم اجلاس کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے سینیٹرز نے ملک میں بڑھتی دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری سینیٹر وقار مہدی نے ایوان بالا میں اپنی پہلی تقریر میں سابق وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے دہشت گردوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی۔

’اچھے‘ اور ’برے طالبان‘ کے بہت زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گرد کبھی اچھا نہیں ہو سکتا کیونکہ دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے، انہوں نے یاد دلایا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے عمران خان کو 2014 میں حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے اپنی مذاکراتی ٹیم کا رکن نامزد کیا تھا۔

سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ پشاور میں حالیہ دہشت گردی کے واقعے کے بعد حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا لیکن عمران خان نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے قومی سلامتی سے جڑے معاملات پر اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دی۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کو ددہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑنے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن گزشتہ حکومت نے اس پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا، سینیٹر وقار مہدی نے کراچی پولیس آفس پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے شہید پولیس اور رینجرز اہلکاروں کو خراج عقیدت اور ان کی بہادری کو خراج تحسین پیش کیا۔

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے اور معاشی بدحالی کے باعث پیدا ہونے والے سنگین مسائل اور شدید بحرانوں کے درمیان حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی حالیہ لیک آڈیو ٹیپ کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ وزیراعظم کے زیر استعمال سیکیور لائن بھی محفوظ نہیں ہے۔

انہوں نے آرٹیکل 4 کی حیثیت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ قوانین کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ سب کس قانون کے تحت ہو رہا ہے؟ کوئی چیک اینڈ بیلنس، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے وزرا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ حکومتی سرکس چل رہا ہے اور کہا کہ وہ بھی اس طرح بیان دے سکتے ہیں جب کہ وزیر دفاع نے حال ہی میں کہا کہ ملک دیوالیہ ہو چکا۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ محمد زئی خان نے طالبان کی حمایت کرنے پر پی ٹی آئی چیئرمین کو تنقید کا نشانہ بنایا، ان کی سخت تقریر کے دوران پی ٹی آئی کی خواتین قانون سازوں نے خلل پیدا کرنے کی کوشش کی، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کس نے منظم منصوبے کے تحت دہشت گردوں کو دوبارہ آباد کیا؟

اجلاس کے دوران عوامی اہمیت کے نکتے پر بات کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد نے افسوس کا اظہار کیا کہ دہشت گرد پشاور پولیس لائنز سے لے کر کراچی پولیس تک ملک بھر میں حملے کرنے کے لیے آزاد ہیں اور اب ان کے حملوں سے ریڈ زون بھی محفوظ نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غریب قوم فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں، پولیس اور عدلیہ پر 3 ہزار ارب روپے خرچ کرتی ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کی لعنت ختم نہیں ہو رہی، 21 لاکھ سے زیادہ مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں ج بکہ جج سیاسی مقدمات میں مصروف نظر آتے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سینیٹ ہول کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے، عسکری قیادت، ڈی جی آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس سمیت دیگر متعلقہ محکموں کو مدعو کیا جائے تاکہ ان ملکی مسائل کے حل کے لیے کوئی راستہ نکالا جا سکے۔

انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کوسٹ گارڈز، ایف سی، کسٹمز اور دیگر ایجنسیوں کی موجودگی کے باجود پاکستان میں شراب کیسے اسمگل کی جا رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں