سندھ ہائیکورٹ کا سمندر میں صنعتی فضلہ اور کچرا پھینکنے کی تحقیقات کا حکم

اپ ڈیٹ 01 مارچ 2023
سیپا کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے قانون حبیب الرحمٰں نے درخواست کی کاپی طلب کرتے ہوئے دلائل کے لیے وقت دینے کی استدعا کردی—فائل فوٹو: ڈان
سیپا کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے قانون حبیب الرحمٰں نے درخواست کی کاپی طلب کرتے ہوئے دلائل کے لیے وقت دینے کی استدعا کردی—فائل فوٹو: ڈان

سندھ ہائی کورٹ نے ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ سندھ (سیپا) کو حکم دیا ہے کہ تحقیقات کریں کہ کچرہ اور صنعتی فضلہ سمندر میں چھوڑا جا رہا ہے یا نہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے سیپا کو حکم دیا ہے کہ ساحل سمندر کا معائنہ کرکے تحقیقات کریں کہ بغیر صاف کیے گندہ پانی اور صنعتی فضلہ سمندر میں چھوڑا جا رہا ہے یا نہیں اور سمندری پانی کو آلودگی سے بچانے کے لیے کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) نے تاحال کیا اقدامات کیے ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے غیر سرکاری تنظیم (این جی اوز) کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سیپا کو حکم دیا کہ عدالت کو اس حوالے سے بھی آگاہ کریں کہ سی بی سی کی طرف سے نصب کیے گئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی کیا صورت حال ہے۔

عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ نے سمندر میں صنعتی فضلہ پھینکے کے خلاف این جی اوز کی طرف سے 2017 میں دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی تو درخواست گزار کے وکیل نے ساحل پر گندگی اور فضلے کی تصاویر پیش کرتے ہوئے بیان جمع کرایا۔

تاہم سیپا کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے قانون حبیب الرحمٰن نے درخواست کی کاپی طلب کرتے ہوئے دلائل کے لیے وقت دینے کی استدعا کر دی۔

دوران سماعت عدالت نے ڈپٹی ڈائریکٹر سیپا کو حکم دیا کہ وہ متعلقہ علاقے کا معائنہ کرکے معلوم کریں کہ صنعتی فضلہ یا گندگی کتنی جگہوں سے سمندر میں پھینکی جا رہی ہے اور سی بی سی نے سمندری پانی کو آلودگی سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔

عدالت نے سیپا کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو ہدایت کی کہ یہ بھی معلوم کریں کہ ساحل سمندر باالخصوص چنکی منکی پر سی بی سی کی طرف سے تعمیر کے گیے ٹریٹمنٹ پلانٹ چل رہے ہیں یا نہیں۔

عدالت نے بین الاقوامی معیارات اور آبی یا سمندری حیات کے ماحولیاتی نظام کے مطابق سمندری پانی کی صفائی کی سطح کو برقرار رکھنے کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے صنعتی اور گھریلو فضلہ کے اخراج کی مقدار کی حجمی پیمائش کے ساتھ ایک جامع رپورٹ بھی طلب کرلی۔

عدالت نے فریقین کو ہدایت کی کہ ساحل سمندر کا معائنہ کرتے وقت تمام متعلقہ فریقین اور ایجنسیز کو ساتھ لے جائیں تاکہ عدالت کے مزید حکم کے لیے اس حوالے سے ایک جامع رپورٹ پیش کی جائے تاک سفارشات پر قانون کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران سی بی سی نے سندھ ہائی کورٹ کا آگاہ کیا تھا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) نے 2021 میں عبدالستار ایدھی اوینیو پر سمندری پانی کو آلودگی سے بچانے کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ نصف کیے ہیں۔

سی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ٹریٹمنٹ پلانٹس کی گنجائش یومیہ 20 لاکھ گیلن (ایم جی ڈی) تھی اور پلانٹ میں موجودہ بہاؤ 0.40 ایم جی ڈی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے سی بی سی 31 مارچ 2023 تک سیوریج پمپنگ اسٹیشن (ایس پی ایس ون) (صبا کراس، محافظ) اور ایس پی ایس ٹو (26ویں کراس محافظ) فیز-7 کو ایس پی ایس 8، فیز-8 کے ساتھ جوڑ کر سیوریج لائن کو مکمل کرنے جا رہا ہے جو سیوریج کا بہاؤ یومیہ 1.50 ملین گیلن ٹریٹمنٹ پلانٹ میں چھوڑے گا اور اسی طرح ان پمپنگ اسٹیشنوں سے ٹریٹڈ فضلہ اور پانی سمندر میں جائے گا۔

خیال رہے کہ 2017 میں ورلڈ بینک فنڈ فار نیچر اور کچھ دیگر این جی اوز نے صنعفی فضلہ، کچرا اور گندگی سمندر میں پھینکے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں سی بی سی، ڈی ایچ اے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کو فریقین کے طور پر شامل کرتے ہوئے درخواست گزار نے عدالت کو آگاہ کیا تھ کہ گندگی اور فضلہ سے ساحل سمندر پر سمندری پانی آلودہ ہو رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں