بولان: رکن اسمبلی سردار یار محمد رند کے بیٹے کے قافلے پر حملہ، دو محافظ جاں بحق

اپ ڈیٹ 12 مارچ 2023
سردار خان رند خودکش حملے میں محفوظ رہے— فوٹو: ٹوئٹر
سردار خان رند خودکش حملے میں محفوظ رہے— فوٹو: ٹوئٹر

بلوچستان کے ضلع بولان میں رکن صوبائی اسمبلی سردار یار محمد رند کے بیٹے سردار خان رند کے قافلے پر دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) کے دھماکے میں دو سیکیورٹی گارڈز جاں بحق اور ایک زخمی ہوگیا۔

ڈان ڈاٹ کام کو ڈھاڈر کے اسسٹنٹ کمشنر فہد شاہ راشدی نے بتایا کہ قافلے کو ضلع بولان کے علاقے سنی شوراں میں نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ای ڈی دھماکے میں دو محافظ جاں بحق اور ایک زخمی ہوا جبکہ دھماکے میں سردار خان رند کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو علاج کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ڈھاڈر منتقل کر دیا گیا ہے۔

ڈھاڈر اسٹیشن ہاؤس افسر شوکت نے تفصیلات کی تصدیق کی۔

رکن صوبائی اسمبلی نے پولیس اہلکار کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میرے بڑے بیٹے سردار خان رند کے قافلے کو نشانہ بنا گیا، تاہم وہ محفوظ ہیں البتہ قافلے میں شامل چند افراد شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع اور زخمیوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے حکم دیا کہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں، دہشت گرد عناصر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن صوبے میں امن و امان کی صورت حال ہر صورت برقرار رکھی جائے گی۔

عبدالقدوس بزنجو نے متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی۔

اس سے قبل پیر کو ضلع بولان میں سکھر-کوئٹہ ہائی وے پر خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری موٹر سائیکل پولیس ٹرک سے ٹکرا دیا تھا، جس کے نتیجے میں بلوچستان کانسٹیبلری کے 9 اہلکار جاں بحق اور 13 زخمی ہوگئے تھے۔

حکام کے مطابق اہلکار سالانہ ’سبی میلے‘ میں ڈیوٹی سرانجام دینے کے بعد واپس کوئٹہ جا رہے تھے کہ ڈھاڈر کے علاقے میں ٹرک کو نشانہ بنایا گیا۔

زور دار دھماکے کے نتیجے میں گاڑی تباہ ہوگئی جس سے 9 اہلکار موقع پر ہی جاں بحق اور باقی زخمی ہوگئے، سینئر پولیس افسر محمود خان نوتزئی نے خودکش حملے کی تصدیق کی تھی جبکہ حملے کی ذمے داری نامعلوم عسکریت پسند تنظیم تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی تھی۔

گزشتہ چند مہینوں کے دوران ملک میں امن و امان کی صورت حال ابتر ہو گئی ہے اور دہشت گرد گروہ ملک بھر میں حملوں کو انجام دے رہے ہیں۔

نومبر میں کالعدم عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کے خاتمے کے بعد سے دہشت گرد تنظیم کے حملوں میں تیزی آئی ہے خاص طور پر خیبر پختونخواہ اور افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں انہوں نے پولیس کو نشانہ بنایا ہے۔

بلوچستان میں باغیوں نے بھی اپنی پرتشدد سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور ٹی ٹی پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز‘ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2018 کے بعد جنوری 2023 بدترین مہینوں میں سے ایک رہا، کیونکہ اس ماہ 134 افراد نے اپنی جانیں گنوائیں جبکہ اس دوران ملک بھر میں عسکریت پسندوں کے 44 حملوں میں کم از کم 254 افراد زخمی ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں