ارسا نے خریف کی فصل کیلئے 37 فیصد قلتِ آب کی تصدیق کردی

07 اپريل 2023
پنجاب اور سندھ کو خریف کے سیزن کی ابتدا میں 27 فیصد اور آخر میں 10 فیصد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا—فائل فوٹو: رائٹرز
پنجاب اور سندھ کو خریف کے سیزن کی ابتدا میں 27 فیصد اور آخر میں 10 فیصد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا—فائل فوٹو: رائٹرز

غیرمعمولی سیلاب کے چند ماہ بعد پاکستان کو خریف فصل کی فصل کے دوران تقریباً 37 فیصد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پانی کی یہ قلت کپاس جیسی اہم نقد آور فصلوں کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ ہو سکتی ہے، جن کی پیداوار پہلے ہی کئی دہائیوں کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔

نتیجتاً انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی مشاورتی کمیٹی کے اجلاس میں اتفاق رائے سے صوبوں کے درمیان پانی کے حصوں کی تقسیم کے لیے تین درجاتی فارمولے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جو اس وقت عملی طور پر جاری ہے۔

ارسا کے چیئرمین اور وفاقی رکن اسجد امتیاز علی کی زیر صدارت اجلاس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پنجاب اور سندھ کو خریف کے سیزن کی ابتدا میں 27 فیصد اور آخر میں 10 فیصد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تاہم واٹر ریگولیٹر دونوں بڑے صوبوں کے درمیان کنوینس نقصانات پر اختلافات کو ختم نہیں کر سکا۔

ارسا نے ایک بیان میں کہا کہ اجلاس نے خیبر پختونخوا کے لیے ارسا کے رکن کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی جو ’مسئلے کو حل کرنے کے لیے نظام کی نقل و حمل کے حقیقی نقصانات کا تعین کرے گی‘۔

ریگولیٹر نے مزید کہا کہ ’مذکورہ کمیٹی کی جانب سے پانی کے اخراج کی پیمائش کی بنیاد پر نظام کے اصل نقصانات کے تعین کے بارے میں جو بھی سفارشات وضع کی جائیں گی وہ سسٹم کے نقصانات پر لاگو ہوں گی‘۔

اجلاس میں چاروں صوبوں کے نمائندوں، ارسا اور واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے اراکین نے شرکت کی۔

جس میں اتفاق کیا گیا کہ انڈس زون میں آبپاشی کے پانی کی قلت ابتدائی خریف میں 37 فیصد اور دیر خریف میں 15 فیصد ہوگی جبکہ جہلم چناب میں قلت ابتدائی خریف میں 10 فیصد اور خریف کے آخر میں نہ ہونے کے برابر ہوگی۔

پاکستان میں فصل کا موسم عام طور پر اپریل سے ستمبر تک رہتا ہے، چاول، گنا، کپاس، مکئی اور ماش اس سیزن کی چند اہم فصلیں ہیں۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا بنیادی ڈھانچے کی رکاوٹوں کی وجہ سے اپنے پانی کے حصے میں کٹوتی سے مستثنیٰ ہیں۔

دو بڑے اسٹیک ہولڈرز، سندھ اور پنجاب، پانی کی ترسیل کے نقصانات یعنی دستیاب پانی کی مقدار جو بے حساب رہتی ہے اور چوری، رساو، بخارات یا مٹی یا نہروں سے جذب ہونے کی وجہ سے ضائع ہوتی ہے اور کھیتوں تک نہیں پہنچ پاتی، اس حوالے سے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

پنجاب نے چشمہ اور کوٹری بیراجوں کے درمیان سندھ کے 35 فیصد اور 40 فیصد کے تخمینے کے مقابلے میں 8-7 فیصد تک نقل و حمل کے نقصانات کا تخمینہ لگایا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ سندھ نے 1991 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے پیرا 2 کے تحت بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے پانی کی کٹوتی اور پانی کی تقسیم سے استثنیٰ ختم کرنے کے لیے اپنی پوزیشن درج کرائی۔

تاہم اس نے دیگر صوبائی اراکین اور چیئرمین کے ساتھ اتفاق کیا کہ ارسا اس وقت موجود تقسیم کے طریقوں کو تبدیل نہیں کر سکتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں