گزشتہ کچھ عرصے سے علالت سے دوچار 17سالہ ہتھنی نور جہاں آج کراچی کے چڑیا گھر میں انتقال کر گئی۔

گزشتہ دنوں جانوروں کے ماہر ڈاکٹرز کے ہمراہ نور جہاں کے علاج کی نگرانی کرنے والی جانوروں کے حقوق کی کارکن ماہرہ عمر نے ہتھنی کی موت کی تصدیق کی۔

کراچی کے چڑیا گھر میں افریقی ہتھنی ’نور جہاں‘ کا 5 اپریل سے ٹیومر کا ہنگامی بنیادوں پر علاج جاری تھا لیکن کچھ ہی دنوں بعد اس کی حالت بگڑ گئی اور وہ کھڑے ہونے کے بھی قابل نہ رہی، اس کی حالت میں سدھار لانے کے لیے مسلسل کوششیں کی جا رہی تھیں۔

ان کی موت سے قبل جانوروں کے مقامی ڈاکٹروں کی ٹیم غیرملکی تنظیم فور پاز کے ساتھ مل کر کام کررہی تھی تاکہ ہاتھی کی حالت کی نگرانی کی جا سکے۔

یاد رہے کہ کراچی چڑیا گھر میں موجود ہتھنی نورجہاں جوڑوں کے درد کی وجہ سے پچھلی ٹانگوں پر وزن ڈالنے سے معذور ہو گئی تھی۔

اس ماہ کے اوائل میں فور پاز کی ٹیم کراچی چڑیا گھر پہنچی تھی جہاں کئی مہینوں سے تکلیف سے دوچار ہتھنی کے علاج کی تشخیص میں حکام ناکام رہے تھے اور ہتھنی تکلیف اور بیماری کی شدت کے سبب حرکت کرنے سے بھی قاصر تھی۔

غیر ملکی ماہرین سے علاج کروانے کے بعد اس کی حالت میں بہتری آئی تھی جنہوں نے اس کے پیٹ میں ایک بڑے ٹیومر کا پتا لگایا تھا۔

ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ نور جہاں کی حالت تشویشناک ہونے کے سبب اسے دوائیوں اور جسمانی علاج کے ساتھ 24 گھنٹے نگرانی کی ضرورت ہے۔

مبینہ طور پر چڑیا گھر کا عملہ ہدایات پر عمل درآمد میں لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہا تھا اور ٹیم کے جانے کے چار دن کے اندر مبینہ طور پر ہتھنی تالاب میں گر گئی تھی۔

اس ہفتے کے اوائل میں چڑیا گھر کے اہلکاروں نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا تھا کہ جانوروں کے ماہرین تکلیف سے نجات دلاتے ہوئے موت کی نیند سلانے کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔

اے ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نور جہاں کی قسمت کا فیصلہ اب ایک کمیٹی کو کرنا تھا جو آسٹریا میں مقیم جانوروں کی چیریٹی فور پاز انٹرنیشنل کے جانوروں کے ڈاکٹر امیر خلیل کی آمد کی منتظر تھی، نور جہاں کے ٹیومر کا علاج امیر خلیل نے ہی کیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نور جہاں کے ٹیومر کا علاج کرنے والی ٹیم کے سربراہ امیر خلیل ہتھنی کی حالت میں بہتری کے لیے اپنے تئیں ایک آخری کوشش کرنا چاہتے ہیں۔

اس نے خلیل کے حوالے سے کہا کہ وہ پیچیڈرم کی بحالی میں مدد کے لیے ”ایک آخری کوشش“ کرنا چاہتے تھے۔

گزشتہ سال اگست میں نور جہاں اور ان کے ساتھ رہنے والی مدھوبالا کا فور پاز کی ٹیم نے دانت کے انفیکشن کے لیے آپریشن کیا تھا۔

2021 میں ٹیم نے سندھ ہائی کورٹ کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں جانوروں کی حالتِ زار پر پریشان شہریوں کے ایک گروپ کی جانب سے رابطہ کرنے کیا گیا تھا اور ہاتھیوں کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں اقدامات کی سفارش کی گئی تھی۔

ٹیم نے چڑیا گھر کے ہاتھیوں کو اس بنیاد پر سفاری پارک میں منتقل کرنے کا مشورہ دیا کہ اس میں صوتی آلودگی نسبتاً کم اور مخصوص ماحول میسر ہے۔

نورجہاں اور مدھوبالا دونوں کو دو دیگر سفاری ہاتھیوں کے ساتھ 2010 میں تنزانیہ میں بہت چھوٹی عمر میں پکڑ کر ان کی ماؤں سے الگ کر دیا گیا تھا اور ایک متنازع معاہدے کے تحت کراچی لایا گیا تھا۔

پاکستان کے چڑیا گھروں پر اکثر جانوروں کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کرنے کا الزام لگتا رہا ہے اور 2020 میں ایک عدالت نے دارالحکومت اسلام آباد میں موجود واحد چڑیا گھر کو خستہ حالی اور جانوروں کی مناسب دیکھ بھال نہ کرنے کے سبب بند کرنے کا حکم دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں