سوات: خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کی لہر کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج

اپ ڈیٹ 06 مئ 2023
مقامی رہنماؤں نے سوات اولاسی پسون  کی جانب سے نکالی گئی ایک بڑی ریلی میں شرکت کی—فوٹو: ڈان
مقامی رہنماؤں نے سوات اولاسی پسون کی جانب سے نکالی گئی ایک بڑی ریلی میں شرکت کی—فوٹو: ڈان

خیبرپختونخوا کے شہر سوات میں دہشت گردی کی لہر کے خلاف ہزاروں افراد نے احتجاجی ریلی نکالی جبکہ پختون رہنماؤں نے شکوہ کیا کہ گزشتہ 2 ماہ کے دوران علاقے کے درجنوں افراد کو قتل کیا جا چکا ہے لیکن پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں ان اموات پر خاموش ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقامی رہنماؤں نے تحصیل کبل کی کانجو چوک پر سوات اولاسی پسون کی جانب سے نکالی گئی ایک بڑی ریلی میں شرکت کی۔

صوبے بھر سے لوگوں نے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی اور کبل کے علاقے میں محکمہ انسداد دہشت گردی کی عمارت پر دھماکے، لکی مروت تھانے پر حملے اور کرم کے اسکول میں 8 اساتذہ کی ہلاکت سمیت صوبے میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کی مذمت کی۔

امن مارچ سے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان، پی ٹی ایم کے منظور پشتین، رکن صوبائی اسمبلی علی وزیر، اے این پی کے ایوب خان، سوات قومی جرگہ کے شیرشاہ خان، پختون خواہ میپ کے طالع مند خان، پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر امجد علی، پی ٹی آئی کے تحصیل چیئرمین سعید خان اور دیگر نے خطاب کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کے ہاتھوں درجنوں افراد کی متعدد حملوں میں جانیں چلی گئیں لیکن بدقسمتی سے پارلیمنٹ اور مین اسٹریم میڈیا میں سے کسی نے بھی ان کے لیے آواز نہیں اٹھائی۔

احتجاج کے دوران شرکا سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد خان نے دعویٰ کیا کہ ’پاکستانی ٹی وی چینلز کرکٹ میچ اور ہاتھی کی لاش دکھاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والے پختونوں کی کوریج نہیں کرتے جس سے لگتا ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت میڈیا بھی پختونوں کے ساتھ نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سیاسی مقدمات کی سماعت میں مصروف ہیں لیکن پختون بیلٹ میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کو نظر انداز کر دیا۔

ان کا کہنا تھاکہ پختون علاقوں میں 22 سے زیادہ فوجی آپریشن کیے گئے لیکن ان سب کا مقصد امن بحال کرنا نہیں بلکہ امریکی ڈالر اکٹھا کرنا تھا، یکم جنوری سے 30 اپریل تک خیبرپختونخوا میں کم از کم 120 پولیس اہلکار مارے جاچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اپنی چھاؤنیوں کو برطانوی راج کی علامت سمجھتے ہوئے ختم کر رہا ہے لیکن پاکستانی فوج ملک میں ان چھاؤنیوں کی تعداد میں اضافہ کر رہی ہے۔

رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے کہا کہ ریاست کی غلط پالیسیوں نے خوبصورت اور پرامن سوات کے علاقے کو بارود بھرے جہنم میں تبدیل کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ پختونوں کے پاس ریاست کی دہشت گردی کی پالیسیوں کے خلاف متحد ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین نے سوال اٹھایا کہ ملک میں دہشت گرد کس نے پیدا کیے اور جدید ہتھیار پھیلائے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ بیرونی قوتوں نے ملک میں دہشت گردی نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ 20 سے زائد فوجی آپریشن کیے گئے لیکن وہ مٹھی بھر دہشت گردوں کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔

منظور پشتین نے کہا کہ دہشت گردی کی حقیقت سے پختون بخوبی واقف ہیں اور اس بار دھوکے میں نہیں آئیں گے۔

مقررین نے کہا کہ امن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور پختون عوام ڈالروں کے لیے لڑی گئی جنگ میں اپنا خون بہانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے خیبرپختونخوا پولیس کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ کبل میں محکمہ انسداد دہشت گردی کی عمارت پر دھماکے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوئے اور واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

مقررین نے کہا کہ اگر ملک میں پختون سرزمین پر دہشت گردی کا ایک اور واقعہ پیش آیا تو اگلا احتجاج کھلی جگہوں یا بازاروں کے بجائے کنٹونمنٹ ایریاز کے باہر کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں