پنجاب کی زرعی اراضی پاک فوج کے حوالے کرنے کا اقدام کالعدم قرار

اپ ڈیٹ 22 جون 2023
عدالت میں فوج کو اراضی دینے کے فیصلے کو مفاد عامہ کی پٹیشن کے ذریعے چیلنج کیا گیا تھا — فائل فوٹو: لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ
عدالت میں فوج کو اراضی دینے کے فیصلے کو مفاد عامہ کی پٹیشن کے ذریعے چیلنج کیا گیا تھا — فائل فوٹو: لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کی نگراں حکومت کی جانب سے تین اضلاع میں 45 ہزار ایکڑ اراضی 20 سالہ لیز پر فوج کے حوالے کرنے کے فیصلے کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یہ معاہدہ دونوں یعنی حکومت اور فوج کے دائرہ اختیار سے باہر تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت فوج کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے مقصد کے لیے بھکر، خوشاب اور ساہیوال میں زمین کی ملکیت چاہتی تھی۔

جسٹس عابد حسین چٹھہ نے چار ایک جیسی درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت کے پاس الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 کے تحت کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ سے متعلق اقدام اور پالیسی کے حوالے سے کسی بھی طرح سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کا آئینی اور قانونی اختیار نہیں ہے۔

حکومت کے اس اقدام کے خلاف یہ درخواستیں پبلک انٹرسٹ لا ایسوسی ایشن آف پاکستان، ایک غیر منافع بخش قانونی تنظیم، اور دیگر نے دائر کی تھیں، درخواست گزاروں کی جانب سے احمد رفیع عالم، فہد ملک اور زوہیب بابر نے نمائندگی کی۔

پنجاب کی نگراں حکومت نے بھکر، خوشاب اور ساہیوال کے اضلاع میں 45 ہزار 267 ایکڑ اراضی 20 سال کے لیے لیز پر فوج کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، جبکہ اس معاہدے کو مزید 10 سال تک بڑھانے کا آپشن بھی تھا۔

جسٹس عابد حسین چٹھہ نے 29 مارچ کو غیر قانونی لین دین پر حکم امتناع جاری کیا تھا اور 29 مئی کو حتمی فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

جج نے گزشتہ سال 14 اکتوبر کو وزارتی کمیٹی کے اجلاس اور نگراں کابینہ کے 9 فروری کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں اور نئے اسٹیٹمنٹ آف کنڈیشنز (ایس آف کنڈیشنز) کی منظوری پر مشتمل لین دین کو غیر قانونی اور بغیر قانونی حیثیت کا قرار دیا۔

جسٹس چٹھہ نے حکم دیا کہ اس کے بعد کے تمام نوٹی فکیشنز اور پیش رفت بشمول پاکستان آرمی کے حق میں سرکاری اراضی کی منظوری یا منتقلی بھی کالعدم ہوگئی ہے۔

منتخب حکومت کا دائرہ کار

لاہور ہائی کورٹ کے جج نے مشاہدہ کیا کہ نگران کابینہ کا نئے اسٹیٹمنٹ آف کنڈیشنز کی منظوری کا فیصلہ مستقبل میں منتخب حکومتوں کے ذریعے اختیارات کے استعمال کو پہلے سے خالی کرنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کا وہاں سے اقدام اٹھانا جہاں گزشتہ منتخب حکومت نے چھوڑا تھا اور اس سے آگے بڑھنا الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 کے مطابق اس کے دائرہ کار اور مینڈیٹ سے باہر ہے اور مستقبل کی منتخب حکومتوں کے دائرہ اختیار پر قبضہ کرنے کے مترادف ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ لہٰذا یہ دلیل کہ نگران کابینہ سابقہ منتخب حکومت کے پہلے سے منظور شدہ کارپوریٹ فارمنگ اقدام پر عمل درآمد کر رہی ہے تاکہ مؤخر الذکر کی ’اصولی‘ منظوری کو آگے بڑھایا جاسکے۔

اس ’جلد بازی‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے جس کے تحت غیر قانونی لین دین منظوری کے مختلف مراحل سے گزرا، جسٹس عابد حسین چٹھہ نے نوٹ کیا کہ پاکستانی فوج نے ایک ممکنہ لیز کنندہ کے طور پر 9 فروری کو ایک خط کے ذریعے کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے لیے زمین مانگنے کے لیے نگراں کابینہ کی جانب سے نئے اسٹیٹمنٹ آف کنڈیشنز کی منظوری سے بھی پہلے پنجاب حکومت سے براہ راست رابطہ کیا۔

جج نے کہا کہ پاک فوج کے اس دعوے کی کسی تجرباتی یا شماریاتی اعداد و شمار سے تائید نہیں ہوتی کہ اسے بنجر زمین کو ترقی دینے کا تجربہ ہے۔

جسٹس عابد حسین چٹھہ نے مزید کہا کہ ’یہ محض ایک خیالی دعویٰ تھا، جس میں کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ اقدام کے لیے اس کی خود تعریفی مدد اور تعاون کے لیے زور دیا گیا تھا۔‘

فیصلے میں کہا گیا کہ ’جس غیر ضروری جلد بازی، مکروہ اور ہولناک طریقے کے ساتھ کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ اقدام کے حوالے سے لین دین کی منظوری دی گئی، جس میں بڑی تعداد میں عوامی غیر منقولہ جائیداد کی منظوری دی گئی، انتہائی افسوسناک ہے اور شاید کسی نگران حکومت کی جانب سے اس کی مثال نہیں ملتی۔‘

جج نے فیصلہ دیا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے گورنر کے نام پر کیے گئے جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ (جے وی اے) پر عمل درآمد قانونی تھا لیکن پاک فوج کی جانب سے صدر کے نام پر معاہدہ ظاہر نہ کرنے میں ناکامی کو غیر قانونی قرار دیا۔

جسٹس عابد حسین چٹھہ نے قرار دیا کہ اس لیے گورنر کی جانب سے نوٹی فکیشن کا اجرا غیر قانونی تھا۔

جج نے نوٹ کیا کہ فوجی زمینوں اور چھاؤنیوں کا انتظام وزارت دفاع کے انتظامی کنٹرول میں تھا اور ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ جی ایچ کیو کے ایڈجوٹنٹ جنرل کی برانچ کے ڈائریکٹر جنرل آف اسٹریٹجک پروجیکٹس (ڈی جی ایس پی) کے کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ اقدام کی وفاقی کابینہ نے منظوری نہیں دی تھی۔

جج نے کہا کہ دلائل کے دوران یہ دعویٰ کیا گیا کہ ڈی جی ایس پی نے چیف آف آرمی اسٹاف کی جانب سے کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کی منظوری کی بنیاد پر کام کیا۔

جج نےکہا کہ ’محفوظ طریقے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر ایسی کوئی منظوری تھی تو بھی وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر یہ غیر آئینی اور غیر قانونی تھا‘۔

غلط فہمی

جسٹس عابد حسین چٹھہ نے اس تنازع کو غلط فہمی کے طور پر بیان کیا کہ چونکہ کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ تجارتی معاہدہ تھا اس لیے اسے وفاقی حکومت کی منظوری کی ضرورت نہیں تھی، یہ استدلال آئین کے آرٹیکل 245 اور عدالت عظمیٰ کے ان فیصلوں کو واضح طور پر نظر انداز کرنے برابر تھا کہ مسلح افواج، حکومت کی منظوری یا ہدایت کے بغیر خود سے کچھ نہیں کر سکتیں۔

جج نے قرار دیا کہ حکومت اور ڈی جی ایس پی کا مشترکہ منصوبے کے تحت کارپوریٹ فارمنگ کا اقدام غیر آئینی تھا کیونکہ یہ فوج کے مینڈیٹ سے باہر تھا۔

جسٹس عابد حسین چٹھہ نے اپنے 134 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ ’یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ مسلح افواج بشمول پاکستان فوج اور/یا اس کے ماتحت یا منسلک محکموں/دفاتر کے پاس آئین کے آرٹیکل 245 کے مطابق کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ منصوبے اور پالیسی میں شامل ہونے اور اس میں حصہ لینے کے لیے آئینی اور قانونی مینڈیٹ نہیں ہے‘۔

متنازع لیز معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے جج نے کہا کہ تمام زمین اس کی سابقہ حیثیت کے مطابق حکومت، محکموں اور افراد کو واپس کردی جائے گی۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ سرگرمیاں مسلح افواج کے آئینی اور قانونی مینڈیٹ کے مطابق اور اصلاحی اقدامات کرنے کے لیے تیار ہوں، وفاق پاکستان فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان کے ساتھ مل کر فوج کی تمام سرگرمیوں اور منصوبوں کا جائزہ لے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں