ڈیمز کے تنازع پر ہیگ میں قائم ثالثی کی عدالت نے بھارت کےخلاف فیصلہ دے دیا

اپ ڈیٹ 07 جولائ 2023
بھارت نے ثالثی عدالت کا بائیکاٹ کیا، ایسی صورت میں عدالت ایک طرفہ کارروائی کر سکتی ہے—تصویر رائٹرز
بھارت نے ثالثی عدالت کا بائیکاٹ کیا، ایسی صورت میں عدالت ایک طرفہ کارروائی کر سکتی ہے—تصویر رائٹرز

پاکستان کو ایک بڑی فتح مل گئی اور ہیگ میں قائم ثالثی کی مستقل عدالت (پی سی اے) نے سندھ طاس معاہدے کے تحت کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں پر دونوں ممالک کے درمیان تنازع میں اپنے دائرہ اختیار پر بھارت کے اعتراضات کو مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل فار پاکستان (اے جی پی) کے دفتر کے ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے پی سی اے نے فیصلہ دیا کہ وہ واقعی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا تنازع کا تعین کرنے کی مجاز اتھارٹی ہے۔

ریاستوں کے درمیان ثالثی اور تنازعات کے حل کی دیگر اقسام کی سہولت کے لیے 1899 میں قائم کی گئی ثالثی کی مستقل عدالت غیر اقوام متحدہ بین الحکومتی ادارہ ہے جو بین الاقوامی برادری کی تنازعات کے حل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک فورم کے طور پر کام کرتا ہے۔

خبررساں ادارے رائٹرز نے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’متفقہ فیصلے میں، جس کے فریقین اپیل کے بغیر پابند ہیں، عدالت نے بھارت کی جانب سے اٹھائے گئے ہر اعتراض کو مسترد کر دیا اور یہ طے کیا کہ عدالت پاکستان کی ثالثی کی درخواست میں درج تنازعات پر غور کرنے اور ان کا تعین کرنے کی مجاز ہے‘.

پاکستان کی نمائندگی بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم نے کی، جس کی مدد اٹارنی جنرل آفس کی ایک ٹیم نے کی اور اس میں ایڈووکیٹ زوہیر وحید اور لینا نشتر شامل تھے، جبکہ بیرسٹر احمد عرفان اسلم نے پی سی اے میں پاکستان کے ایجنٹ کے طور پر کام کیا۔

یہ تنازع بھارت کی جانب سے دریائے جہلم پر 330 میگاواٹ کے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ اور مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب پر 850 میگاواٹ کے رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کی تعمیر پر پاکستان کے خدشات سے متعلق ہے۔

اسلام آباد نے 19 اگست 2016 کو سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے مطابق ثالثی کی ایڈہاک عدالت کے قیام کی درخواست کرکے قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔

یہ قدم 2006 میں کشن گنگا پروجیکٹ اور 2012 میں رتلے پروجیکٹ کے لیے مستقل انڈس کمیشن کے سامنے اپنے خدشات اٹھائے جانے کے بعد اٹھایا گیا تھا۔

اس کے بعد پاکستان نے جولائی 2015 میں نئی دہلی میں ہونے والے حکومتی سطح کے مذاکرات کے ذریعے حل کی کوشش کی اور کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ بھارت کی جانب سے اٹھائے جانے والے خدشات کو دور کرنے سے مسلسل انکار کے جواب میں کیا۔

سندھ طاس معاہدہ تنازعات کے حل کے لیے دو فورم فراہم کرتا ہے، ایک ثالثی عدالت، جو قانونی، تکنیکی اور نظاماتی مسائل کو حل کرتی ہے، دوسرا غیر جانبدار ماہر، جو صرف تکنیکی مسائل کو حل کر سکتا ہے، ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے ثالثی عدالت کے قیام کی درخواست کی، کیونکہ اس میں قانونی تشریح کے لیے سسٹمک سوالات تھے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کی جانب سے تنازعات کے حل کے باضابطہ عمل کے آغاز پر ایک غیر جانبدار ماہر کے تقرر کی درخواست کا تاخیر سے جواب دیا، جسے اسلام آباد نے کہا کہ یہ نئی دہلی کا مخصوص بد نیتی کا مظاہرہ ہے۔

دو متوازی عمل کے متضاد نتائج کے خوف سے عالمی بینک نے 12 دسمبر 2016 کو ثالثی عدالت کے قیام یا غیر جانبدار ماہر کے تقرر کے عمل کو معطل کر دیا اور دونوں ممالک کو ایک فورم پر مذاکرات اور اتفاق کرنے کی دعوت دی۔

تاہم، پاکستان اور بھارت متفق نہیں ہو سکے اور عالمی بینک نے 6 سال کے بعد آخر کار معطلی اٹھا کر ثالثی کی عدالت بنائی اور ایک غیر جانبدار ماہر کا تقرر کیا، اس کے دوران بھارت نے کشن گنگا پراجیکٹ کی تعمیر مکمل کرلی تھی۔

عدالت سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کا خیال ہے کہ متضاد نتائج کے کسی بھی خطرے کو دونوں فورمز کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔

پاکستان دونوں فورمز کے ساتھ مصروف عمل ہے، اس کے برعکس اور اپنی خصوصیت کے لحاظ سے بھارت نے ثالثی عدالت کا بائیکاٹ کیا، ایسی صورت میں عدالت ایک طرفہ کارروائی کر سکتی ہے اور ایسا کر رہی ہے۔

رائٹرز کے مطابق عدالت نے اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں کہ یہ مقدمہ کب اور کیسے جاری رہے گا لیکن کہا کہ یہ دو طرفہ سندھ طاس معاہدے کی تشریح اور اطلاق، خاص طور پر ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس پر شقوں کے ساتھ ساتھ معاہدے کے تحت تنازعات کے حل کے اداروں کے ماضی کے فیصلوں کے قانونی اثرات پر بھی توجہ دے گی۔

پی سی اے کے فیصلے کے بعد دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے بشمول اس کے تنازعات کے تصفیے کے طریقہ کار پر پوری طرح پرعزم ہے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا کہ یہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا بنیادی معاہدہ ہے اور پاکستان اس کے نفاذ کے لیے پوری طرح پرعزم ہے، ہمیں امید ہے کہ بھارت بھی اس معاہدے پر نیک نیتی سے عمل درآمد کرے گا۔’

تبصرے (0) بند ہیں