لکھاری کراچی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔
لکھاری کراچی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔

ہمارے چیف سینسس کمشنر نعیم الظفر نے حال ہی میں بیان دیا کہ پاکستان کی مجموعی آبادی 24 کروڑ 95 لاکھ 66 ہزار 743 ہوچکی ہے لیکن ان کے بیان سے ملک میں ایسی کھلبلی نہیں مچی جو مچنی چاہیے تھی۔ یہ بات اب ظاہر ہے کہ ہماری آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ لیکن پھر بھی ممکن ہے کہ ان کے کہنے سے ہم اسے سمجھ لیں

اگر ایسا نہیں ہوتا تو ممکن ہے کہ ’ہماری آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے‘ ایک منتر بن جائے جسے مختلف پلیٹ فارمز پر بار بار دہرایا جائے تو شاید ہمیں اس جملے کی گونج سنائی دے سکے۔ ہمارے کانوں تک یہ جملہ منبر، ٹی وی، ریڈیو، سوشل میڈیا، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اس کی گونج اسکولوں اور جامعات میں بھی سنائی دینی چاہیے۔ شاید گلوکار حسن رحیم اس حوالے سے کوئی گانا بنادیں یا پھر کوک اسٹوڈیو اپنا پورا سیزن اسی حوالے سے بنائے کہ کیسے ہماری آبادی میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے، تو شاید ہمارے یہاں بچوں کی پیدائش کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پایا جاسکے۔

1951ء میں جب ملک میں پہلی مردم شماری ہوئی تھی اُس کے بعد سے پاکستان کی آبادی میں دگنا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ سال 2027ء تک یعنی 4 سال میں آبادی میں مزید دگنا اضافہ متوقع ہے۔ نتیجتاً 1951ء سے 2027ء تک پاکستان کی آبادی میں 8 گنا اضافہ متوقع ہے جوکہ ڈیموگرافر ڈاکٹر فرید مدحت کے نزدیک ’ناقابلِ قبول حد تک زیادہ‘ ہے۔

برسوں سے ہمارے قومی رہنما ہمیں بتاتے آرہے ہیں کہ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد (5 کروڑ 87 لاکھ) ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔ یہ بات پوری طرح درست نہیں۔ حکومت کو بڑھتی ہوئی آبادی کا یہ من گھڑت جواز پیش کرنا اب بند کردینا چاہیے۔ ماہرِ معیشت ڈاکٹر حفیظ احمد پاشا کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ 70 لاکھ نوجوان بےروزگار ہیں جن میں 70 لاکھ نوجوان مرد ہیں۔ کیا حکومتِ پاکستان کے پاس غیرتعلیم یافتہ، غذائی قلت کا شکار، کمزور اور غیرہنرمند طبقے کے لیے کوئی منصوبہ ہے؟ کیونکہ پاکستان کے عوام کے پاس یہی کچھ رہ جائے گا۔

پاکستان کا تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ، بڑھتی ہوئی کرپشن کے باعث بیرونِ ملک جانے کو ترجیح دے رہا ہے۔ سال 2022ء میں 8 لاکھ افراد نے بیرونِ ملک ملازمت کی غرض سے پاکستان چھوڑا۔ یہ صرف ریکارڈ شدہ تعداد ہے جبکہ اصل تعداد تو اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان دونوں قانونی (اعلیٰ ڈگری کے حصول کے لیے جاتے ہیں اور پھر واپس نہیں آتے) اور غیر قانونی (جیسے گزشتہ ماہ ڈوبنے والی یونانی کشتی میں سوار نوجوان) ذرائع سے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں جس کی وجہ سے یہ اعداد زیادہ ہوسکتے ہیں۔

اور پھر پریشان گریجویٹ افراد کا وہ طبقہ ہے جو اپنی صلاحیتوں اور تعلیم کے مطابق ملازمت کے حصول میں ناکام ہے۔ 2022ء میں انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ پاکستان میں گریجویٹ افراد میں بےروزگاری کی شرح 31 فیصد سے زیادہ ہے۔

حکومت اسکول، جامعات، اسپتال حتیٰ کہ ڈیموں کی تعمیر جاری رکھ سکتی ہے۔ وہ نوجوانوں کی ترقی کے لیے منصوبے بھی بنا سکتی ہے، لیکن کیا یہ سب کافی ہوگا؟

ڈاکٹر فرید مدحت ’پاپولیشن اینڈ ڈیولپمنٹ ریسرچ سینٹر‘ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو ایک طرح کا تھنک ٹینک ہوگا جہاں آبادی خصوصاً نوجوانوں کے حوالے سے نئی معلومات تشکیل کی جاسکیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ معلومات اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کی جائیں گی تاکہ بےروزگار نوجوانوں کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ افراد اس سینٹر کی تعمیر کے لیے عطیات دینے میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں لیکن اسے کسی حکومتی تعلیمی ادارے میں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح ہمارے پالیسی سازوں کو اس 25 کروڑ کے قریب آبادی خاندانی منصوبہ بندی کی نظر سے بھی دیکھنا چاہیے۔ ملک میں بچوں کی پیدائش کی بڑھتی ہوئی مجموعی شرح کو دیکھنے کے لیے ایک ڈیموگرافر ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس وقت بھی پاکستان میں ٹوٹل فرٹیلیٹی ریٹ [ایک خاتون اپنی زندگی میں جتنے بچوں کو جنم دیتی ہے] اوسطاً 3.32 ہے۔ اگرچہ رواں سال بھارت، دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے لیکن اس کا ٹوٹل فرٹیلیٹی ریٹ (ٹی ایف آر) 2.0 ہے جوکہ 2.1 کے ریپلیسمنٹ لیول [آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے درکار شرح] سے بھی کم ہے۔ بھارت میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے 66.7 فیصد استعمال ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں یہ شرح 34 فیصد ہے۔ بھارت نے اپنی ٹی ایف آر میں کمی کی وجہ مانع حمل ادویات کے استعمال اور لڑکیوں بڑھتی ہوئی آگاہی کو قرار دیا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ سیاست کی سیڑھی چڑھنے کے لیے آبادی کے مسئلے کا استحصال بند کیا جائے کیونکہ یہ ہمیں مزید اندھیرے میں دھکیلے گا۔ وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کے پاپولیشن پروگرام وِنگ کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سبینہ درانی ایسے ہتھکنڈوں کو درست نہیں سمجھتیں۔ ہر صوبے کی جانب سے این ایف سی ایوارڈ پر اثر انداز ہونے، پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے یا سول سروسز کے کوٹے میں زیادہ حصہ لینے کے لیے، آبادی کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی مثال دیتے ہوئے وہ سوال کرتی ہیں کہ اگر آبادی کو اتنی اہمیت دی جائے گی تو صوبے اپنی متعلقہ آبادی کو کم کرنے کے لیے آخر کیوں سرمایہ کاری کرنا چاہیں گے۔

پاکستان میں یونائٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈز کے نمائندے کہتے ہیں کہ موجودہ مسائل کو حل کرنے کے لیے نئے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ آبادی کے معاملات کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (جوکہ کورونا وبا کے دوران بنائی گئی تھی) کے طرز کی ایجنسی کا قیام ہے تاکہ پاکستانی خواتین اور لڑکیوں کی صحت اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے جوکہ آج یعنیٰ 11 جولائی 2023ء، کومنائے جانے والے آبادی کے عالمی دن کا عنوان بھی ہے۔


یہ مضمون 11 جولائی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں