نواز شریف واپس انتقام لینے نہیں، ملک کو خوشحال کرنے آرہے ہیں، شہباز شریف

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2023
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس آرہا ہے اور وطن واپس انتقام لینے کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کو دوبارہ خوشحال کرنے کے لیے آ رہا ہے۔

شہباز شریف نے لاہور میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے زمانے میں آٹا 35 روپے کلو تھا اور چینی 52 روپے کلو تھی اور پاکستان میں مہنگائی نام کی کوئی چیز نہیں، اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے پاکستان کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے شبانہ روز محنت کی، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اور اسی وجہ سے 2018 کے انتخابات میں تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو خالی اقتدار سے علیحدہ نہیں کیا گیا بلکہ آپ کو، آپ کے بچوں کو تعلیم سے، علاج سے اور ترقی اور خوشحالی سے محروم کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اس مہینے کی 21 تاریخ کو واپس پاکستان آرہا ہے، یہ ترقی کا سفر جو اس نے 2018 میں چھوڑا تھا بلکہ جو ترقی کا سفر ختم کروایا گیا تھا دراصل آپ کی ترقی اور خوشحالی کے سفر کو ختم کیا گیا تھا، نواز شریف اس سفر کو دوبارہ شروع کرنے آرہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ نواز شریف وطن واپس انتقام لینے کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کو دوبارہ خوشحال کرنے، ترقی کا دور دوبارہ چلانے اور پاکستان کو بھارت سے آگے لے جانے کے لیے واپس آرہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن اداروں نے نواز شریف کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ان کا آپ کو اچھی طرح علم ہے لیکن فیصلہ یہ کرنا ہے کہ آگے انتقام لینا ہے یا یتیموں اور غریبوں کی خدمت کرنی ہے اور میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں نواز شریف کے ساتھ اپنی جان لڑاؤں گا۔

’نواز شریف 21 اکتوبر کو مینار پاکستان پہنچ کر اپنا مقدمہ اللہ پر چھوڑے گا‘

بعد ازاں بلہڑ گاؤں میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ 21 اکتوبر کو اس دھرتی کا بیٹا نواز شریف واپس پاکستان آرہا ہے، آپ جانتے ہیں کہ 2013 سے لے کر 2018 تک پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا سفر بہت تیزی سے طے ہو رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ گردوں کی بیماریوں کا علاج کرنے والا سب سے بڑا ہسپتال پی کے ایل آئی نواز شریف کی قیادت میں بنایا گیا، پنجاب بھر میں دانش اسکول بنائے گئے جہاں یتیم بچے اور بچیوں کو مفت تعلیم دی گئی، لاکھوں بچوں اور بچیوں کو تعلیم کے وظیفے دیے گئے اور ہیپاٹائٹس کے مفت علاج کا آغاز کر کے غریبوں کے لیے مفت ادویات کا اجرا کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گھروں میں 20، 20 گھنٹے بجلی نہیں آتی تھی، بجلی نہ آنے سے فیکٹریوں کی چمنی سے دھواں نکلنا بند ہو گیا، نواز شریف قوم کا وہ معمار ہے جس نے سی پیک اور پاکستان کے اپنے خزانے سے اربوں ڈالر خرچ کر کے بجلی کی لوڈشیڈنگ کو ختم کیا، اس کو سازشیوں نے ایک سازش کے تحت 2017 میں ایک جعلی مقدمے میں سزا دی جو پاناما سے شروع ہوا اور اقامہ پر ختم ہوا، یہ سازشی کردار سب آپ کے سامنے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سب سے افسوسناک بات ہے کہ اقتدار سے نواز شریف سے نہیں چھینا گیا بلکہ آپ کا اور آپ کے بچوں کی ترقی اور خوشحالی کے سفر سے آپ کو محروم کردیا گیا، اس کے بعد چار سال ہمیں جس طرح دن رات گالی گلوچ اور چور و ڈاکو کہا گیا، اس نے اس معاشرے میں زہر گھول دیا۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آپ دیکھ لیں کہ 2013 سے 2018 تک پاکستان کہاں جا رہا تھا، 2018 کے بعد آج اکتوبر 2023 میں مہنگائی عروج پر ہے، مجھے جب 13 جماعتوں کی مخلوط حکومت ملی تو پاکستان ڈیفالٹ ہونے جا رہا تھا، پچھلی حکومت نے جو آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا، اس سے وہ پھر گئے اور پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس کے نتیجے میں ہماری سیاست قربان ہوئی لیکن نواز شریف نے، میں نے اور ہماری پارٹی نے سیاست کو قربان کیا اور پاکستان اور ریاست کو بچایا، مجھے اس پر کوئی پشیمانی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف وطن واپس انتقام لینے کے لیے نہیں بلکہ قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے آ رہا ہے اور پاکستان کو دوبارہ ترقی اور خوشحالی کے سفر پر دوبارہ لے جانے کے لیے ا رہا ہے، نواز شریف اس ملک کی قسمت بدلے گا اور اسے عظیم بنائے گا۔

شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کو جیلوں اور نیب کے عقوبت خانوں میں بھجوایا گیا، ان کی بیٹی اور ہماری پارٹی کے بے شمار رہنماؤں کو کس طرح جیلوں میں بھجوایا گیا تاکہ اس ملک میں فاشزم آجائے، اس ملک کو تباہ کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، کس طرح ہمارے برادر ممالک متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر اور دوسرے اسلامی ممالک سے تعلقات تباہ کردیے گئے، ہم نے اللہ کے کرم سے ان تعلقات کو ٹھیک کیا اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف جب 21 اکتوبر کو مینار پاکستان پہنچے گا تو اپنا مقدمہ اللہ پر چھوڑے گا اور اعلان کرے گا کہ میں پاکستان کو دوبارہ قائد اعظم کا پاکستان بنانے آیا ہوں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 12 ستمبر کو مسلم لیگ (ن) کے صدر نے اعلان کیا تھا کہ پارٹی قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آئیں گے۔

اس سے قبل بطور وزیر اعظم گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ نواز شریف قانون کا سامنا کریں گے، نہ وہ توپ پہنیں گے، نہ کوئی بالٹی پہنیں گے، نہ کوئی جادو ٹونا اور نہ ہی کوئی پھونکیں وغیرہ کریں گے، وہ آکر قانون کا سامنا کریں گے۔

تاہم نواز شریف کی وطن واپسی سے قبل مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محاذ آرائی کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا کیونکہ انہوں نے ان جرنیلوں اور ججوں کے کڑے احتساب کا عزم ظاہر کیا تھا جن پر انہوں نے 2017 میں ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی ’سازش‘ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

پارٹی کے کچھ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وہ ’جنرل اور جج مخالف‘ بیانیے کے ممکنہ ردعمل سے فکرمند ہیں، سابق پی ڈی ایم حکومت کے ایک رکن نے رائے دی کہ ہمیں باجوہ مخالف بیانیے میں بہت محتاط رہنا ہوگا، 2014 میں جنرل مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کرنے کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے، ماضی کو بھول کر مصالحت کی طرف جانا چاہیے، کون جانتا ہے کہ احتساب کا یہ نعرہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں مسلم لیگ (ن)، بالخصوص نواز شریف کو کہاں لے جائے گا۔

اس کے پیش نظر پاکستان پیپلز پارٹی (ّپی پی پی) کے رہنما خورشید شاہ نے مسلم لیگ(ن) کو مشورہ دیا تھا کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہ کرے اور ایسی محاذ آرائی سے گریز کرے۔

تاہم گزشتہ ہفتے اس سلسلے میں اس وقت اہم پیشرفت ہوئی تھی جب پارٹی سربراہ نواز شریف کے قریبی ساتھی نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے احتساب کا مطالبہ نہیں کر رہی۔

ماڈل ٹاؤن میں پارٹی کے دفتر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا تھا کہ ہم (مسلم لیگ ن) جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کے احتساب کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ صرف ان کرداروں اور سہولت کاروں کے احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں، جو 9 مئی کے واقعات اور آرمی چیف کے خلاف بغاوت میں ملوث تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگرچہ مسلم لیگ (ن) میں 90 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ جنرل باجوہ اور فیض حمید نواز شریف کی نااہلی کے ذمہ دار ہیں لیکن ہم ان کے خلاف کسی کارروائی کا مطالبہ نہیں کر رہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں