فرخ حبیب کا پی ٹی آئی چھوڑ کر استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کا اعلان

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2023
فرخ حبیب نے لاہور میں استحکام پاکستان پارٹی کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی—فوٹو: ڈان نیوز
فرخ حبیب نے لاہور میں استحکام پاکستان پارٹی کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار رہنما فرخ حبیب نے پارٹی چھوڑ کر جہانگیر ترین کی قیادت میں استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔

لاہور میں استحکام پاکستان پارٹی کے دفتر میں عون چوہدری اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فرخ حبیب نے کہا کہ گزشتہ تین ہفتوں سے میں نے اپنے اہل خانہ سے رابطہ منقطع کیا ہوا تھا جس کی کچھ وجوہات تھیں کیونکہ گزشتہ 5 ماہ سے گھر میں موجود نہیں تھے

انہوں نے کہا کہ 9 مئی کا واقعہ افسوس ناک تھا جس کی وجہ سے گھروں میں موجود نہیں تھے اور گزشتہ 5 ماہ سے یہ سوچ دماغ میں تھی کہ جو سیاست ہم کر رہے ہیں کیا اس کے لیے ہم نے سیاست کا آغاز کیا تھا۔

خیال رہے کہ سیکیورٹی فورسز نے گزشتہ ماہ کے آخر میں فرخ حبیب کو 8 دیگر افراد کے ساتھ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے گرفتار کر لیا تھا اور بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے اس گرفتاری کی تصدیق کر دی تھی۔

حکام نے بتایا تھا کہ فرخ حبیب گواد کے مقامی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور ان کی موجودگی کی اطلاع پر سادہ کپڑوں میں ملبوس سیکیورٹی اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور انہیں گرفتار کرلیا، جن میں فرخ حبیب کے بھائی اور سسر بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فرخ حبیب اور دیگر افراد کو گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔

دوسری جانب پی ٹی آئی نے بتایا تھا کہ فرخ حبیب کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی ہے۔

ہفتے کو فرخ حبیب کی اہلیہ نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھا تھا اور شوہر کی فوری بازیابی کی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ ہمیں خوف ہے کہ میرے شوہر کو سیاسی جماعت تبدیل کرنے کے لیے حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

فرخ حبیب پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت میں وزیر مملکت برائے اطلاعات اور پی ٹی آئی کے مغربی پنجاب ونگ کے صدر ہیں۔

پریس کانفرنس کے دوران فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ ہم حقیقی معنوں میں پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانے کے لیے جدوجہد میں تھے۔

فرخ حبیب نے کہا کہ حالات کے تسلسل اور جذبات میں انسان اتنا آگے چلا جاتا ہے کہ کچھ پتا نہیں چلتا، میں نے وقت لیا تاکہ اپنا کوئی فیصلہ کروں، میرے دوستوں نے اس متعلق میری مدد کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم سیاست کو جمہوری جدوجہد سے ہٹ کر پرتشدد ماحول میں لائے۔

فرخ حبیب نے کہا کہ اپریل میں عدم اعتماد تحریک کا عمل ہوا جو کہ آئینی طریقے سے ہوا لیکن اس کے بعد جمہوری جدوجہد ہونی چاہیے تھی، انتخابات کا انتظار کرنا چاہیے تھا لیکن پرتشدد مزاحمت کا راستہ اختیار کرلیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم خود مار کھا لیتے تھے لیکن پرتشدد سیاست نہیں کرتے تھے، ہم رات دن سیاسی کام کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس دور سے کام کر رہے تھے جب لوگ پوچھتے تھے تحریک انصاف کیا ہے، اس وقت ہمارا پیغام قائد اعظم کا پاکستان اور پرامن سیاسی جدوجہد تھی۔

’9 مئی کے بعد لوگوں کو سڑکوں پر نکل کر مزاحمت کا پیغام دیا گیا‘

فرخ حبیب نے کہا کہ 9 مئی کے بعد لوگوں کو سڑکوں پر نکلنے اور مزاحمت کرنے کا پیغام دیا گیا، معصوم لوگوں کو اکسایا گیا اور ان کے دماغ میں مسلسل جذبات بھڑکائے گئے کہ پاکستان کے ادارے آپ کے خلاف کام کر رہے ہیں۔

عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ سے لوگ پرامن جدوجہد کی توقع کرتے تھے آپ نے بیلٹ کے بجائے بلٹ کا راستہ دیا اور پھر 24 گھنٹے مزاحمت ہوتی رہی، رات دن ٹی وی پر بیٹھ کر نیلسن منڈیلا کا سبق دیا جاتا تھا لیکن منڈیلا نے نوجوانوں کو پیٹرول بم بنانے کی ترغیب نہیں دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مزاحمت کے نتیجے میں کئی لوگ زخمی ہوئے، املاک کو نقصان پہنچا، عمران خان کی ذمہ داری تھی کہ وہ تدبر دکھاتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، ان کا خیال تھا کہ لوگ ان کے لیے لڑیں۔

فرخ حبیب نے مزید کہا کہ ہمارے دور حکومت میں بھی اس وقت کی اپوزیشن نے برداشت کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 9 مئی کے واقعہ کے لیے مسلسل لوگوں کی ذہن سازی کی گئی، اکسایا گیا کہ گرفتاری کے وقت لوگ جمع ہوجائیں۔

’گرفتاری کے وقت پتا نہیں چند لوگوں کو کیا احکامات تھے‘

فرخ حبیب نے کہا کہ آپ کی گرفتاری کے وقت چند لوگوں کو پتا نہیں کیا احکامات تھے، جب میں نے حالات دیکھے تو کشیدہ تھے، میں کہیں بھی نہیں گیا، جو کچھ اس دن ہوا یہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت تھا جس کو سیاہ واقعے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے جوانوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دی ہیں۔

فرخ حبیب نے کہا کہ عمران خان نے بدقستی سے پرتشدد سیاست کو فروغ دیا، ہم اس عمران خان کے ساتھ شامل نہیں ہوئے تھے، مدینہ کی ریاست میں لوگوں کو اکسایا نہیں جاتا، لیڈر وہ ہوتا ہے جو راستہ دکھاتا ہے۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان جیسا ملک اس طرح آگے نہیں چل سکتا جس طرح یہاں ہو رہا ہے۔

’ہم نواز شریف اور زرداری پر تنقید کرتے تھے عمران خان نے توشہ خانہ سے گھڑیاں لیں‘

سابق پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم توشہ خان سے متعلق نواز شریف اور آصف زرداری پر تنقید کرتے تھے لیکن عمران خان نے بھی وہاں سے گھڑیاں لیں، بھلے ہی انہوں نے پیسوں سے خریدیں لیکن ہمیں اس کا پتا تک نہیں تھا۔

فرخ حبیب نے کہا کہ میرا سوال ہےکہ عمران خان کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ توشہ خانہ سے گھڑیاں لیتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس بارے میں سوچیں، صبر کریں، یہ سوچیں کہ اگر کسی کی گاڑی جلی ہے تو وہ بھی کسی شہری کی ہے۔

فرخ حبیب نے کہا کہ نوجوانوں سے پوچھا کہ گاڑیاں کیوں توڑی ہیں تو کہنے لگے خاب صاحب پر حملہ کرنے آئے تھے، نوجوانوں کے لیے سوال چھوڑ رہے ہیں کہ ہم حقائق کو چھوڑ کر ایسے بیانیہ کے پیچھے نہ لگیں کہ ہم اپنی ہی ریاست کے خلاف ہو جائیں۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے دیگر رہنما بھی اپنی اپنی جگہ سوچ رہے ہیں، جن لوگوں کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں وہ بھی جیل میں ہیں۔

’جہانگیر ترین اور علیم خان کے ساتھ ہم نے کام کیا ہے ’

استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے فرخ حبیب نے کہا کہ میں استحکام پارٹی پاکستان میں شمولیت اختیار کر رہا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ ہم اپنے گھر میں ہی ہیں کیونکہ جہانگیر خان ترین کے ساتھ ہم نے کام کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہانگیر خان ترین کے پاس وژن ہے، وہ کسانوں اور کاشت کاروں کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔

فرخ حبیب نے کہا کہ اگر ہم تحریک انصاف کے لیے دن رات کام کر سکتے تھے، بینر لگاتے تھے، کرسیاں لگاتے تھے تو وہی محنت اس پارٹی کے لیے بھی کر سکتے ہیں، ہمیں ملک کے لیے کام کرنا ہے، میں کوئی دہشت گرد نہیں کہ پہاڑوں میں چھپ جاؤں اور نہ ہی ریاست مخالف ہوں۔

ایک سوال پر فرخ حبیب نے کہا کہ اگر میرے خلاف مقدمات ہیں تو میں کہتا ہوں ک مجھے قانون کے مطابق ان کا سامنا کرنے کا حق دیا جائے، اگر میں نے کوئی دشت گردی کی ہے تو مجھے سزا ملنی چاہیے۔

پی ٹی آئی کا ردعمل

فرخ حبیب کی پریس کانفرنس پر رد عمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف نے ان کی ’بازیابی‘ کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ وہ پارٹی سے علیحدہ کرنے کے ’مرحلے‘ کا حصہ تھے جو کہ گزشتہ 17 ماہ سے جاری ہے۔

پی ٹی آئی کے سینٹرل میڈیا ڈپارٹمنٹ نے ایک جاری بیان میں کہا کہ ’یہ ممکن نہیں کہ چہرہ اور اسٹائل تبدیل کرکے ایک ہی اسکرپٹ دہراتے ہوئے قوم کو گمراہ کیا جائے اور نہ ہی سچ کے ساتھ جھوٹ ملانا ممکن ہے‘۔

بیان میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کو سائیڈلائن کرنے کی تمام کوششیں عوام میں پارٹی کی حمایت میں اضافہ کر رہی ہیں۔

رہنما پی ٹی آئی زلفی بخاری نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر بیان میں کہا کہ ’جبری استعفوں اور اعتراف پر مبنی ٹی وی شوز اور پریس کانفرنسز مذاق بن گئی ہیں۔

زلفی بخاری نے کہا کہ ’ایک اور اغوا کئے گئے رہنما ٹی وی پر آئے، چند ہفتے وہ لاپتا رہے اور انہیں اسی دوران اندازہ ہوا کہ وہ غلط لیڈر، پارٹی اور راستے کی پیروی کر رہے ہیں‘۔

زلفی بخاری نے مزید کہا کہ ’فرخ حبیب نے دباؤ اور ٹارچر برداشت کرنے کی ہر کوشش کی‘، ہمیں خوشی ہے کہ بلآخر وہ گھر واپس آئے۔

پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے کہا کہ ’پہلے صرف لوگوں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا تھا لیکن اب ’مطالبات‘ بڑھ گئے ہیں کہ ٹاک شو میں آئیں، استحکام پارٹی پاکستان میں شمولیت اختیار کریں اور عمران خان پر تنقید کریں۔

پارٹی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے کہا کہ پریس کانفرنس ایک اور ’اسٹیجڈ انکاؤنٹر‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’فرخ حبیب کے لہجے اور گفتگو میں ہم آہنگی اور تعاون نہیں تھا، جمہوریت کو ایک ایک اینٹ کرکے گرایا جا رہا ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں