عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو 5 سالہ ترقیاتی منصوبہ، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سرمایہ کاری کی منتظمیت کے منصوبے پر کام کرنے اور شفافیت کے لیے پروجیکٹ کی لاگت کا کرائی ٹیریا شائع کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ عالمی کلائمٹ فنانسنگ کو راغب کیا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے یہ گائیڈلائنز دونوں فریقین کے 3 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے پہلے جائزے کے بعد عملے کی سطح کے معاہدے کے فوری بعد سامنے آئی، بعد ازاں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی جانب سے 1.5 ارب ڈالر کے یوروبانڈ کا اجرا ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور فروری میں انتخابات کے فوری بعد ایک اور ممکنہ آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے کا امکان ظاہر کیا۔

دریں اثنا جاری آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکام کا منصوبہ سخت مالی اور زری پالیسیوں کا ہے تاکہ بہتر کریڈٹ ریٹنگ کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور بعد ازاں گرین بانڈ کا اجرا کرسکیں، جسے انوائرمنٹل، سوشل اور گورننس (ای ایس جی) بانڈ کہا جاتا ہے۔

قدرتی آفات بار بار آنے کی وجہ سے عالمی ڈونرز بھی اپنے ٹیکس دہندگان کے قلیل وسائل بچانے کے لیے کوشاں ہیں، جب تک موسمیاتی تبدیلی سے متعلق قدامات نہ کیے جائیں۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کے 2018 میں 11ویں پانچ سالہ منصوبے چھوڑنے کے فیصلے پر حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ وسط اور طویل مدتی منصوبہ بندی کو بحال کرے، جس میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق منصوبوں کو حصہ بنایا جائے۔

آئی ایم ایف نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں جاری تکنیکی رپورٹ میں کہا کہ شہروں کی لچک بڑھانے کے لیے ملکی سطح پر حکمت عملی کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ صوبائی اور شہروں کی سطح پر منصوبوں کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں وزارت خزانہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقامی، صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومتی سرمایہ کاری میں مالیاتی خطرات کی نگرانی کرے اور سرکاری ملکیتی اداروں جیسا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) پر نظر رکھے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان سے دسمبر 2024 تک ایک پانچ سالہ حکمت عملی تیار کرنے کے لیے کہا ہے تاکہ تمام شعبوں میں بڑے منصوبوں کی نشاندہی کی جائے اور شعبہ جاتی سرمایہ کاری کے منصوبوں کی رہنمائی کے عمل کو مضبوط بنایا جائے جس میں بڑے منصوبوں پر توجہ مرکوز کی جائے، آزادانہ جانچ کو بڑھایا جائے۔

حکام سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بڑے منصوبوں کی معلومات، اسکرونٹی اور کوآرڈیینشن کو بہتر کرے، چاہے ان کی فنانسنگ کا ذریعہ کوئی بھی ہو اور پی ایس ڈی پی کے اہم منصوبوں کی معلومات کی سمری بجٹ دستاویزات میں پیش کرے اور شفافیت کے لیے اسے پبلک کیا جانا چاہیے۔

تکنیکی طور پر منظور کردہ منصوبوں کا بھی ایک بار جائزے اور اولین ترجیحی پروجیکٹس کی شناخت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مزید بتایا گیا کہ اسی طرح وزارتوں یا صوبوں کو باضابطہ پر معلومات فراہم نہیں کی گئی کہ شعبہ جاتی منصوبے کس طرح نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی (این سی سی پی) اور قومی سطح پر طے شدہ تعاون کے ساتھ منسلک ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں