ایران: پولیس اسٹیشن پر حملے میں 11 پولیس اہلکار ہلاک

16 دسمبر 2023
ایران کے سرکاری ٹی وی کا کہنا تھا سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلوں میں کئی حملہ آور بھی مارے گئے— فائل فوٹو: رائٹرز
ایران کے سرکاری ٹی وی کا کہنا تھا سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلوں میں کئی حملہ آور بھی مارے گئے— فائل فوٹو: رائٹرز

ایران کے جنوبی مشرقی صوبے سیستان بلوچستان کے پولیس تھانے میں رات گئے ہونے والے حملے میں 11 پولیس اہلکار مارے گئے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے سرکاری ٹی وی کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلوں میں کئی حملہ آور بھی مارے گئے۔

صوبے کے ڈپٹی گورنر علی رضا مرہماتی نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ رسک قصبے کے پولیس ہیڈ کوارٹرز پر حملے میں 11 پولیس اہلکار ہلاک اور دیگر زخمی ہوگئے۔

افغانستان اور پاکستان کے ساتھ ایران کی سرحد کے قریب واقع خطے میں آدھی رات کے قریب ہونے والا حملہ برسوں میں علاقے میں ہونے والا سب سے زیادہ مہلک ترین حملہ تھا، جیش العدل گروپ نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر جاری بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی، جیش العدل 2012 میں وجود میں آئی اور اسے ایران نے ’دہشتگرد گروہ‘ کے طور پر بلیک لسٹ کیا ہوا ہے۔

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے علی رضا مرہماتی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ نشانہ بنائے جانے والے تھانے میں موجود پولیس افسران نے بہادری سے اپنا دفاع کیا اور چند حملہ آوروں کو زخمی اور ہلاک کر دیا۔

ارنا کے مطابق زاہدان پراسیکیوٹر مہدی شمس آبادی کا کہنا تھا کہ 7 پولیس افسران زخمی ہوگئے جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔

نیوز ایجنسی نے کہا کہ سیستان بلوچستان کے پولیس کمانڈر جائے وقوعہ پر موجود ہیں اور اب صورتحال پر قابو پالیا گیا ہے، حملے کی تحقیقات کا بھی آغاز کردیا گیا ہے۔

اسنا نیوز ایجنسی نے ایک ہیلی کاپٹر کی فوٹیج شائع کی ہے، جو حملہ آوروں کو ایران-پاکستان سرحد پر پہاڑوں کے اوپر تلاش کر رہا ہے۔

ڈپٹی وزیر داخلہ میراج میر احمدی نے ٹی وی پر کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے ایک حملہ آور کو گرفتار کرلیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حملہ آور سرحد کے اس پار فرار ہونے میں ناکام ہوگئے اور سیکیورٹی فورسز نے پورے خطے کو محفوظ کرلیا ہے۔

غریب صوبے سیستان بلوچستان میں ہونے والی بدامنی میں ڈرگ اسمگلنگ گروہ، گینگز، باغی اور انتہا پسند گروہ ملوث ہیں۔

اس سے قبل بھی ایسے ہی حملے ہو چکے ہیں جن میں 23 جولائی کا حملہ بھی شامل ہے جب 4 پولیس اہلکار گشت کے دوران مارے گئے تھے، یہ واقعہ اس صوبے میں فائرنگ کے تبادلے میں 2 پولیس اہلکاروں اور 4 حملہ آوروں کے مارے جانے کے دو ہفتے بعد پیش آیا جس کی ذمہ داری جیش العدل نے قبول کی تھی۔

مئی میں سیستان بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت زاہدان کے جنوب مشرق میں واقع ساراوان کے علاقے میں 5 ایرانی سرحدی محافظ مسلح گروہوں کے ساتھ تصادم میں مارے گئے تھے۔

سرکاری میڈیا نے اس وقت اطلاع دی تھی کہ یہ حملہ ایک دہشت گرد گروپ نے کیا جو ملک میں دراندازی کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے ارکان زخمی ہونے کے بعد موقع سے فرار ہو گئے۔

مئی کے آخر میں ارنا نے ایک پولیس اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ طالبان فورسز نے قحط زدہ علاقے سیستان بلوچستان میں ایک ایرانی پولیس اسٹیشن پر گولی چلائی تھی، دونوں ممالک پانی کے حقوق پر جھگڑتے رہے ہیں۔

زاہدان شہر میں بھی مہینوں سے خطرناک مظاہرے جاری تھے جو گزشتہ سال ستمبر میں پولیس افسر کی جانب سے ایک نوعمر لڑکی کے ساتھ مبینہ زیادتی کے نیتجے میں پھوٹ پڑے تھے۔

ستمبر میں زاہدان میں جھڑپیں اس وقت شروع ہوئی جب ایران میں خواتین کے لباس کے سخت قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار 22 سالہ مہسا امینی کی دوران حراست موت واقع ہونے کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں