سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظورکرلی

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2023
گزشتہ ماہ عمران خان نے سائفر کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا— فائل فوٹو: ایکس/ پی ٹی آئی
گزشتہ ماہ عمران خان نے سائفر کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا— فائل فوٹو: ایکس/ پی ٹی آئی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں سابق و زیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی۔

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل تھے۔

سپریم کورٹ نے درخواست منظور کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو 10،10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جس انداز میں ٹرائل ہو رہا ہے، پراسیکیوشن خود رولز کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ جیل میں قید شخص ایک بڑی جماعت کی نمائندگی کرتا ہے، اس وقت معاملہ بانی پی ٹی آئی کا نہیں، عوام کے حقوق کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پر جرم ثابت نہیں ہوا، وہ معصوم ہیں، انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کے لیے اچھی بنیاد ہے۔

قبل ازیں سماعت کے آغاز پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا، قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی نوٹس کر دیتے ہیں، آپ کو کیا جلدی ہے۔

وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں، جس پر قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اسپیڈی ٹرائل ہر ملزم کا حق ہوتا ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں ٹرائل جلدی مکمل نہ ہو؟

وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ان کیمرا ٹرائل کے خلاف آج ہائی کورٹ میں بھی سماعت ہے جب کہ وکیل حامد خان نے بتایا کہ دوسری درخواست فرد جرم کے خلاف ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو فرد جرم چیلنج کی تھی وہ ہائی کورٹ ختم کرچکی ہے، نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ ٹرائل اب بھی اسی چارج شیٹ پر ہو رہا ہے جو پہلے تھی، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ پرانی چارج شیٹ کے خلاف درخواست غیر موثر ہوچکی ہے، نئی فرد جرم پر اعتراض ہے تو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں۔

وکیل حامد خان نے استدعا کی کہ مناسب ہوگا آج ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ایسا نہ ہو آئندہ سماعت تک ٹرائل مکمل ہوجائے۔

وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ شام چھ بجے تک ٹرائل چلتا ہے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عدالتی اوقات کار کے بعد بھی ٹرائل چل رہا ہوتا ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ہمارے کیس چلتے نہیں، آپ کا چل رہا ہے تو آپ کو اعتراض ہے، فرد جرم والی درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹا دیتے ہیں۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ حامد خان درخواست میں ترمیم کر چکے ہیں، اب اسے نئی درخواست کے طور پر لیا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ترمیم شدہ درخواست بھی ہائیکورٹ سے پہلے ہم کیسے سن سکتے ہیں؟ سائفر کیس میں 13دسمبر کی فردجرم چیلنج ہی نہیں کی گئی۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ آج کی ہائی کورٹ کارروائی کا انتظار کیا جائے، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ بری کر دے تو بھی اس درخواست پر کچھ نہیں ہوسکتا، فرد جرم کے خلاف درخواست غیر موثر ہوچکی ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ آج التوا دے دیں، آئندہ سماعت پر شاید واپس لے لوں، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ کیس ملتوی ہوا تو ضمانت والا بھی ساتھ ہی ہوگا۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سائفر کوڈز کی صورت میں آتا ہے، وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈز پر مبنی سائفر وزیراعظم کو نہیں دیتا، وزارت خارجہ وزیراعظم کو سائفر کا ترجمہ یا اس پر بریفنگ دیتی ہے۔

جس پر وکیل سابق وزیراعظم سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کوڈز ہر ماہ تبدیل ہوتے ہیں، سائفر کا انگریزی ترجمہ متعلقہ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پراسیکویشن کا کیا کہنا ہے کہ سائفر کس کیساتھ شیئر کیا گیا؟ سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کسی کے ساتھ کبھی شیئر نہیں کیا گیا۔

سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرنے کے بعد ہی سپریم کورٹ کو بھیجا گیا تھا، سائفر کے خفیہ کوڈز کبھی سابق وزیراعظم کے پاس تھے ہی نہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزارت خارجہ سائفر سے متعلق حکومت کو آگاہ کرتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی میں مدد مل سکے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا مقصد ہی یہی ہے کہ حساس معلومات باہر کسی کو نہ جا سکیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ڈپلومیٹک معلومات بھی حساس ہوتی ہیں لیکن ان کی نوعیت مختلف ہوتی ہے،جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید نے سائفر حساس ترین دستاویز کے طور پر بھیجا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس بات پر تو آپ متفق ہیں کہ حساس معلومات شیئر نہیں ہوسکتیں، جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ دیکھنا یہی ہے کہ حساس معلومات شیئر ہوئی بھی ہیں یا نہیں،۔

وکیل سلمان صفدر نے دلیل دی کہ سابق وزیراعظم کےخلاف سزائے موت یا عمر قید کی دفعات عائد ہی نہیں ہوتیں، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ سائفر کسی سے شیئر نہیں کیا لیکن اسے آن ایئر تو کیا ہی گیا ہے۔

اغوا برائے تاوان سنا تھا، اغوا برائے بیان کیا ہوتا ہے؟ قائم مقام چیف جسٹس

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ وزارت خارجہ سے سائفر اعظم خان کو بطور پرنسپل سیکرٹری موصول ہوا تھا، جس میٹنگ میں سائفر کا الزام ہے وہ 28 کو ہوئی، چالان کے مطابق جس جلسے میں سائفر لہرانے کا الزام ہے وہ 27 تاریخ کو ہوا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے اگر وہ باہر گیا ہے تو یہ دفتر خارجہ کا جرم ہے، سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا۔ جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے تقریر میں کہا وزیراعظم کو سازش کا بتا دیا ہے، حلف کا پابند ہوں، اس بیان کے بعد شاہ محمود قریشی 125 دن سے جیل میں ہیں۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے جلسے میں کہا تھا میرے پاس یہ خط سازش کا ثبوت ہے، جلسے میں کہیں نہیں کہا کہ سائفر میں کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے، ایک طرف کہتے ہیں سائفر پبلک کیا، ساتھ ہی کہتے ہیں ان کیمرا ٹرائل ہونا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ استفسار کیا کہ سابق وزیراعظم کو جیل میں رکھنے سے معاشرے کو کیا خطرہ ہوگا؟ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ دفعہ 164 کا بیان ملزم کا اعترافی بیان ہوتا ہے، اعظم خان کے اہلخانہ نے ان کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا، اعظم خان دو ماہ لاپتا رہے، یہ اغوا برائے بیان کا واقعہ ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اغوا برائے تاوان تو سنا تھا اغوا برائے بیان کیا ہوتا ہے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میرے لیے سب سے آسان الفاظ اغوا برائے بیان کے ہی تھے، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اغوا برائے بیان ابھی اصطلاح ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے بیان دیا کہ سابق وزیراعظم سے سائفر مانگا تو انہوں نے کہا گم گیا ہے، سابق وزیراعظم نے ملٹری سیکریٹری کو بھی سائفر تلاش کرنے کا کہا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اعظم خان کے بیان میں واضح ہے کہ وزیراعظم کے پاس موجود دستاویز سائفر نہیں تھی، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے کہا ان کی موجودگی میں ہی بنی گالہ میں وزارت خارجہ نے بریفننگ دی۔

’وزیر خارجہ سیانا تھا، سائفر کے بارے میں نہیں بتایا، وزیراعظم کو آگے کر دیا‘

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ کیا سیکرٹری خارجہ ملزم ہیں یا گواہ؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت کے سیکریٹری خارجہ گواہ ہیں، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ وزارت خارجہ نے سترہ ماہ تک سائفر کی کاپی وزیراعظم سے نہیں مانگی، اعظم خان کے مطابق عمران خان عسکری قیادت پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے، اعظم خان نے کہا بنی گالا میٹنگ کے بعد سائفر کو پبلک میں لہرانے کا فیصلہ ہوا۔

سلمان صفدر نے سابق وزیراعظم اور وزیرخارجہ کا جلسے میں خطاب کا متن پڑھ دیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بہتر ہو گا آپ دلائل ضمانت تک محدود رکھیں، پوری دنیا میں سفیر اپنے ممالک کو سائفر بھیجتے ہیں، انہیں کبھی پبلک میں زیر بحث نہیں لایا جاتا۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے شاہ محمود قریشی کی تقریر کا متن سن کر ریمارکس دیے کہ سائفر کس نے لکھا، کیا کہا گیا یہ جلسے میں نہیں بتایا گیا، وزیرخارجہ سیانا تھا اس نے وزیراعظم کو آگے کر دیا، وزیرخارجہ نے وزیراعظم کو کہہ دیا تم جانو تمہارا کام جانے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن آنے والے ہیں اور بانی پی ٹی آئی ایک سیاسی لیڈر ہیں، یہ بتائیں کیا ان کے باہر آنے سے سوسائٹی کو کوئی خطرہ ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے سائفر کیس پر سوالات اٹھادیے

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ دفتر خارجہ سائفر کسی کو بھیج ہی نہیں سکتا، اگر ایسا ہوا ہے تو غلطی دفتر خارجہ سے ہوئی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‏سابق وزیراعظم کو جیل میں رکھنے سے معاشرے کو کیا خطرہ ہوگا؟ ‏کیا تفتیشی افسر نے اعظم خان کی گمشدگی پر تحقیقات کیں؟

سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان کا بیان دباؤ کا نتیجہ ہے تفتیشی افسر نے کوئی تحقیقات نہیں کیں، اعظم خان نے واپس آتے ہی سابق وزیراعظم کے خلاف بیان دے دیا۔

‏جسٹس اطہر من اللہ نے سائفر کیس پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ تفتیشی کو کیسے پتہ چلا بنی گالا میں میٹنگ ہوئی تھی؟ تفتیشی نے اعظم خان کی گمشدگی پر تحقیقات کیں؟ دفتر خارجہ سائفر وزیراعظم کو بھی دے سکتا ہے؟ سائفر باہر گیا تو غلطی دفتر خارجہ کی نہیں؟ ‏الیکشن آنے والے ہیں اور بانی پی ٹی آئی بڑے سیاسی لیڈر ہیں، یہ بتائیں کیا ان کے باہر آنے سے سوسائٹی کو کوئی خطرہ ہے؟

’سمجھ دار وزیر خارجہ خود بچ گئے، عمران خان کو پھنسا دیا‘

سلمان صفدر نے دوران دلائل بتایا کہ شاہ محمود قریشی نے تقریر میں کہا کہ بہت سے راز ہیں لیکن حلف کی وجہ سے پابند ہوں سامنے نہیں رکھ سکتا، اس پر جسٹس سردار طارق نے کہا وزیر خارجہ خود سمجھدار تھا، سمجھتا تھا کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں، وزیر خارجہ نے سائفر کا کہا کہ بتا نہیں سکتا اور عمران خان کو پھنسا دیا کہ آپ جانیں اور عمران جانے، خود بچ گئے اور عمران کو کہا کہ سائفر پڑھ دو۔

سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان نے بھی پبلک سے کچھ شئیر نہیں کیا تھا، نا ایسا کوئی جرم کیا کہ سزائے موت یا عمر قید کی دفعات عائد کی جائیں، اگر کچھ غلط نہیں ہوا تھا، تو امریکی سفیر کو بلا کر احتجاج کیوں کیا گیا؟ ‏سائفر کے خفیہ کوڈز کبھی سابق وزیراعظم کے پاس تھے ہی نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزارت خارجہ سائفر سے متعلق حکومت کو آگاہ کرتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی میں مدد مل سکے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ‏آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا دائرہ وسیع کرکے سابق وزیراعظم پر لاگو کیا گیا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ افواج پاکستان کے حوالے سے ہے جو ملکی دفاع سے جڑا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائفر کا مقدمہ بنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ سابق فوجی افسران پر لگا جنہوں نے حساس معلومات دشمن ممالک کو دیں، ‏وزارت خارجہ کے اپنے پروٹوکولز ہیں، اس قانون کا اطلاق کہوٹہ پلانٹ کی تصاویر دشمن ملک کے ساتھ شیئر کرنے پر ہوتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ سو سال پرانا قانون ہے جو سنگین جرائم کے کیسز میں استعمال ہوتا ہے۔

وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں مختلف بھارتی فیصلوں کے حوالے دیے، یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جو کہ سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے خلاف بنایا گیا، سائفر وزارت خارجہ سے آیا، پراسیکیوشن کے مطابق ان کا سکیورٹی سسٹم رسک پر ڈالا گیا، وزارت خارجہ نے سائفر سے متعلق کوئی شکایت نہیں کی۔

سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، رانا ثنااللہ نے بطور وزیر داخلہ ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کا کہا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‏سائفر کوڈز کی صورت میں آتا ہے، وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈز پر مبنی سائفر وزیراعظم کو نہیں دیتا، وزارت خارجہ وزیراعظم کو سائفر کا ترجمہ یا اس پر بریفنگ دیتی ہے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر اس وقت بھیجا جاتا ہے جب کوئی اہم بات وزارت خارجہ کو بتانا مقصود ہو، سائفر کوڈز ہر ماہ تبدیل ہوتے ہیں، سائفر کا انگریزی ترجمہ متعلقہ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل نیاز اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کو کاغذات جمع کرانے سے روکا جا رہا ہے، قائم مقام چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر آپ کا امیدوار اشتہاری ہو تو کیا ہوگا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کو درخواست دی ہے؟

جس پر وکیل نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو بھی آ گاہ کر دیا ہے، ہماری درخواست سماعت کیلئے مقرر کی جائے، قائم ممام چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوگی۔

‏بعد ازاں سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے دس دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سابق وزیراعظم کی چالیس مقدمات میں ضمانت قبل ازگرفتاری منظور ہوچکی ہے،کسی بھی سیاسی لیڈر کے خلاف ایک شہر میں چالیس مقدمات درج نہیں ہوئے، جس انداز میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مقدمات درج کر رہے ہیں اسے رکنا چاہیے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم ریاستی دشمن نہیں بلکہ سیاسی دشمن ہیں، سابق وزیراعظم نے خط کے مندرجات کسی سے شیئر نہیں کیے، یا امریکی سفیر کو بلا کر کیا گیا احتجاج غلط ہے یا پھر سائفر کا مقدمہ، شہباز شریف نے بھی سابق وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والی قومی سلامتی کونسل کے نکات کی توثیق کی تھی۔

سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ شاہ محمود قریشی پر نہ سائفر رکھنے کا الزام ہے نہ ہی کسی سے شیئر کرنے کا، شاہ محمود قریشی پر واحد الزام تقریر کا ہے جس کا جائزہ عدالت پہلے ہی لے چکی ہے، شاہ محمود قریشی دس دن ریمانڈ پر رہے، کوئی برآمدگی نہیں ہوئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا شاہ محمود قریشی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں؟ وکیل علی بخاری نے کہا کہ شاہ محمود قریشی آج کاغذات جمع کرائیں گے، انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کیلئے اچھی بنیاد ہے۔

پراسیکویٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کیا جب کہ اس دوران تحریک انصاف کی لیول پلینگ فیلڈ فراہمی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن حکام کو طلب کرلیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سماعت کچھ در میں ہوگی، رجسٹرار آفس فریقین کو آگاہ کر دں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سائفر کی ایک ہی اصل کاپی تھی جو دفتر خارجہ میں تھی، سائفر دفتر خارجہ کے پاس ہے تو باہر کیا نکلا ہے؟ پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ حساس دستاویزات کو ہینڈل کرنے کے لیے رولز موجود ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ رولز کی کتاب کہاں ہیں؟ پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ رولز خفیہ ہیں اس لئے عدالت کی لائبریری میں نہیں ہونگے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ رولز کیسے خفیہ ہوسکتے ہیں؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ہدایت نامہ ہے جو صرف سرکار کے پاس ہوتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جس انداز میں ٹرائل ہو رہا ہے پراسیکیوشن خود رولز کی خلاف ورزی کر رہی ہے،ڈی کوڈ ہونے کے بعد بننے والا پیغام سائفر نہیں ہوسکتا۔

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے کہا کہ سائفر کا مطلب کیا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے، ڈی کوڈ ہونے کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا۔

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے کہا کہ سائفر جب ڈی کوڈ ہوگیا تو سائفر نہیں رہا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سائفر کے حوالے سے قانون دکھائیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا سیکریٹری خارجہ نے وزیر اعظم کو بتایا تھا کہ یہ دستاویز پبلک نہیں کرنی؟ تفتیشی افسر کو سیکرٹری خارجہ کے بیان میں کیا لکھا ہے؟

رضوان عباسی نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ نے میٹنگ میں یہ بات کہی تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ نے تحریری طور پر کیوں نہیں آگاہ کیا؟

کیس میں سزائے موت کی دفعات بظاہر مفروضے پر ہیں، جسٹس منصور علی شاہ

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا تفتیشی افسر نے حساس دستاویزات پر مبنی ہدایت نامہ پڑھا ہے؟ تفتیشی رپورٹ میں کیا لکھا ہے کہ سائفر کب تک واپس کرنا لازمی ہے؟ نہ پراسیکیوٹر کو سمجھ آ رہی ہے نہ تفتیشی افسر کو تو انکوائری میں کیا سامنے آیا ہے؟

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے کہا کہ کیا گواہان کے بیانات حلف پر ہیں؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ گواہی حلف پر ہوتی ہے، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق گواہ کا بیان حلف پر نہیں ہے، کیا اعظم خان کی گمشدگی کی تحقیقات کی ہیں؟

تفتیشی افسر نے کہا کہ اعظم خان نے واپس آنے کے ایک ماہ بعد بیان دیا، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ماہ اعظم خان خاموش کیوں رہا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا اعظم خان شمالی علاقہ جات گئے تھے؟

’ہر دور میں سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟حکومت 1970، 1977 والے حالات چاہتی ہے‘؟

رضوان عباسی نے کہا کہ اعظم خان کے مطابق پی ٹی آئی کا ان پر دباؤ تھا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عباسی صاحب ایسی بات نہ کریں جو ریکارڈ پر نہ ہو، جسٹس سردار طارق نے کہا کہ شہباز شریف نے کیوں نہیں کہا کہ سائفر گم گیا ہے؟ شہباز شریف نے کس دستاویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیا تھا؟ رضوان عباسی نے جواب دیا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سائفر پیش ہوا تھا۔

قائم مقام چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اصل سائفر پیش ہوا تھا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ رضوان عباسی نے جواب دیا کہ ڈی کوڈ کرنے کے بعد والی کاپی سلامتی کمیٹی میں پیش ہوئی تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سائفر کیس میں سزائے موت کی دفعات بظاہر مفروضے پر ہیں، سائفر کے حوالے سے قانون دکھائیں، کیا سیکرٹری خارجہ نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ یہ دستاویز پبلک نہیں کرنی؟ تفتیشی افسر کو سیکرٹری خارجہ کے بیان میں کیا لکھا ہے؟

رضوان عباسی نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ نے میٹنگ میں یہ بات کہی تھی جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیکرٹری خارجہ نے تحریری طور پر کیوں نہیں آگاہ کیا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ سائفر معاملے پر غیرملکی قوت کو کیسے فائدہ پہنچا؟ جو دستاویزات آپ دکھا رہے ہیں، اس کے مطابق تو غیر ملکی طاقت کا نقصان ہوا ہے، کیا حکومت 1970 اور 1977 والے حالات چاہتی ہے؟ کیا نگران حکومت نے آپ کو ضمانت کی مخالفت کرنے کی ہدایت کی ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر دور میں سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ سابق وزیراعظم کے جیل سے باہر آنے سے کیا نقصان ہوگا؟ اس وقت سوال عام انتخابات کا ہے، اس وقت چئیرمین پی ٹی آئی نہیں عوام کے حقوق کا معاملہ ہے، عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، سابق وزیراعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا، وہ معصوم ہیں۔

فیصلے کے بعد تو صرف رسی دینا باقی رہ گیا، ‏اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر چیف جسٹس حیران

‏سائفر کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے لکھے فیصلے پر سپریم کورٹ نے اظہار حیرانی کیا، قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے کہا کہ ہائیکورٹ نے تو مگر ماشا اللہ کیس کا ہی فیصلہ کر دیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد تو صرف رسی دینا باقی رہ گیا۔

جسٹس منصور نے کہا کہ سزائے موت کا اس کیس پر اطلاق ہی نہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر سائفر گم ہو گیا تھا تو قومی سلامتی کونسل کے دو اجلاسوں میں شہباز شریف نے کیوں نہیں بتایا؟ شہباز شریف نے کس دستاویز پر سلامتی کونسل کا اجلاس کیا تھا؟ ایک ماہ آعظم خان کیوں خاموش رہا؟ کیا اعظم خان شمالی علاقہ جات گیا تھا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ‏کیا تفتیشی افسر نے حساس دستاویزات پر مبنی ہدایت نامہ پڑھا ہے؟ تفتیشی رپورٹ میں کیا لکھا ہے کہ سائفر کب تک واپس کرنا لازمی ہے؟ نہ پراسیکیوٹر کو سمجھ آ رہی ہے نہ تفتیشی افسر کو تو انکوائری میں کیا سامنے آیا ہے؟

‏قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کیا گواہان کے بیانات حلف پر ہیں؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ گواہی حلف پر ہوتی ہے، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق گواہ کا بیان حلف پر نہیں ہے۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ اعظم خان نے واپس آنے کے ایک ماہ بعد بیان دیا، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ماہ اعظم خان خاموش کیوں رہا؟ کیا اعظم خان شمالی علاقہ جات گئے تھے؟

رضوان عباسی نے کہا کہ اعظم خان کے مطابق پی ٹی آئی کا ان پر دباؤ تھا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عباسی صاحب ایسی بات نہ کریں جو ریکارڈ پر نہ ہو، رضوان عباسی نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سائفر پیش ہوا تھا، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اصل سائفر پیش ہوا تھا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ رضوان عباسی نے کہا کہ ڈی کوڈ کرنے کے بعد والی کاپی سلامتی کمیٹی میں پیش ہوئی تھی۔

کل بلوچ فیملیز کے ساتھ جو ہوا، اس پر بھارت میں کیا کچھ واویلا نہیں ہوا ہوگا؟ اطہر من اللہ

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سائفر کیس میں سزائے موت کی دفعات بظاہر مفروضے پر ہیں، اسد مجید کے بیان میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی دوسرے ملک کو فائدہ پہنچا ہے، عدالت سائفر پبلک کرنے کو درست قرار نہیں دے رہی لیکن بات قانون کی ہے، سزائے موت کی دفعات عائد کرنے کی بنیاد کیا ہے وہ واضح کریں، ابھی تک کسی گواہ کے بیان سے ثابت نہیں ہو رہا کہ کسی غیر ملکی طاقت کو فائدہ ہوا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں مقدمہ ان کیمرا چلے گا لیکن گواہان کے بیان پڑھنا شروع ہوگئے ہیں۔

پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ بھارت میں سائفر لہرانے پر بہت واویلا ہوا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کل بلوچ فیملیز کے ساتھ جو ہوا، اس پر کیا کچھ واویلا نہیں ہوا ہوگا؟

’وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے نکالنے سے جگ ہنسائی نہیں ہوتی؟ ’؟

رضوان عباسی نے کہا کہ دوطرفہ تعلقات متاثر ہونے سے دشمن کو فائدہ ہوگا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات خراب ہونے سے کسی اور ملک کا فائدہ ہوا، اس کی تفتیش کیسے ہوئی؟ تعلقات خراب کرنے کا تو ایف آئی آر میں ذکر ہی نہیں،

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے باہر نکالنے سے ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوتی؟ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے ہٹانے پر بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگے گا؟ انڈیا میں ہماری جگ ہنسائی تو کسی بھی وجہ سے ہوسکتی ہے اس پر کیا کریں گے؟۔

تحریری فیصلہ جاری

سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کا چار صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے پانچ صفحات پر مشتمل علیحدہ نوٹ بھی لکھا۔

عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کا فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جنہوں نے لکھا کہ فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز ٹرائل کو متاثر نہیں کریں گی اور اگر بانی پی ٹی آئی ضمانت کا غلط استعمال کریں تو ٹرائل کورٹ اسے منسوخ کر سکتی ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5(3) بی کے جرم کا ارتکاب ہونے کے شواہد نہیں اور ملزمان کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جرم کے ارتکاب کے لیے مزید انکوائری کے حوالے مناسب شواہد ہیں۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ مزید تحقیقات کا فیصلہ ٹرائل کورٹ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی کر سکتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ ملزمان پر جس جرم کے ارتکاب کا الزام ہے وہ ریپ، بچوں سے زیادہ، قتل عام سمیت ان جرائم کے ضمرے میں نہیں آتا ج سے معاشرے کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور ٹرائل ابھی جاری ہے جبکہ ٹرائل کا پورا انحصار دستاویزی ثبوتوں پر ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ درخواست گزاروں کی قید سے کچھ خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے جبکہ اب کی ضمانت پر رہائی سے حقیقی معنوں میں انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جا سکتا ہے لہٰذا ان کی بیل کی درخواست مسترد کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔

بعد ازاں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سابق وزیراعظم عمران خان نے سائفر کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اپنی درخواست ضمانت مسترد کیے جانے کے فیصلے کو اپنے وکیل سردار لطیف خان کھوسہ کے توسط سے چیلنج کیا۔

اپیل میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست کو ان ریمارکس کے ساتھ مسترد کیا کہ ٹرائل کورٹ میں چالان جمع کرایا جا چکا ہے، اس لیے عمران خان ٹرائل کورٹ سے اپنی بریت کی درخواست کر سکتے ہیں، مزید کہا گیا کہ سابق وزیر اعظم پہلے ہی جج کا تقرر، خصوصی عدالت کی حیثیت اور سائفر تحقیقات سے متعلق ایف آئی اے کی کارروائی کو چیلنج کر چکے ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم کو آرٹیکل 248 کے تحت دیے گئے ’استثنیٰ‘ اور اہم معاملات پر عوام کو اعتماد میں لینے کے ان کے آئینی حق کے پہلوؤں پر غور ہی نہیں کیا۔

درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر عمران خان کو ضمانت دے۔

خیال رہے کہ 9 اکتوبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چالان کی نقول فراہم کیں جس کے بعد ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا۔

خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، عمران خان کے خلاف کیس کی ابتدائی سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

سائفر کیس

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں