دو دریاؤں جہلم اور چناب کے درمیان واقع ضلع گجرات عسکری، سیاسی اور صنعتی اعتبار سے ملک میں منفرد حییثیت رکھتا ہے۔ یہاں کے سیاستدان صدر مملکت، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ جیسے اہم عہدوں پر فائض رہے مگر گجرات کو پیرس بنانے کا وعدہ وفا نہ ہوسکا۔

ضلع گجرات کی سرزمین نے میجر عزیز بھٹی شہید، میجر شبیر شریف شہید اور میجر اکرم شہید نشانِ حیدر جیسے قوم کے بہادر سپوتوں کوجنم دیا۔ گجرات کو پاکستان کی سیاست میں بھی ہمیشہ اہم مقام حاصل رہا۔ سابق صدر چوہدری فضل الٰہی، سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین، سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی، سابق وزیرتجارت چوہدری احمد مختار اور سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کا تعلق بھی گجرات سے ہے۔

گجرات کی کل آبادی 32 لاکھ 19ہزار 375 ہے۔ یہاں 21 لاکھ 54 ہزار سے زائد ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 11 لاکھ 44 ہزار اور خواتین ووٹرز کی10لاکھ 9ہزار سے زائد ہے۔ ضلع جگرات قومی اسمبلی کی 4 اور پنجاب اسمبلی کی8 نشستوں میں تقسیم ہے

ضلع کو سیوریج کے ناقص نظام اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

پیپلزپارٹی کی سابق رکن قومی اسمبلی ثمینہ فخر پگانوالہ کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) دونوں اقتدار میں رہیں اور دونوں نے ہی گجرات کے لیے کچھ نہیں کیا۔ جماعت اسلامی شمالی پنجاب امیر ڈاکٹر طارق سلیم کے مطابق سابق منتخب نمائندوں کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کے مسائل ختم ہونے کے بجائے بڑھ مزید گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور گجرات کے سابق سٹی میئر بھی اپنی کارکردگی میں ایک سڑک کی تعمیر ہی گنواسکے۔

برسوں کی رنجش کے بعد لاہور میں ہونے والی نواز شجاعت ملاقات کے اثرات عام انتخابات میں گجرات میں بھی محسوس کیے جائیں گے جبکہ چوہدری خاندان کے سیاسی بٹوارے کے بعد پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت بھی پہلی بار انتخابی میدان میں آمنے سامنے ہوں گے۔

فروری میں ہونے والے انتخابی دنگل میں پورے ملک کی نظریں گجرات کے نتائج پربھی مرکوز ہوں گی جہاں مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) کے جنون کےدرمیان ون ٹو ون مقابلے کاامکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں