سندھ کا صحرائی ضلع تھرپارکر جہاں زندگی کا انحصار بارش پر ہے۔ یہاں دور حاضر میں بھی پینے کا پانی نایاب ہے۔ بےپناہ کوئلے کے ذخائر کے باوجود تھر کی مشکلات جوں کی توں برقرار ہیں۔ لوگوں کو پانی کے ساتھ صحت، تعلیم اور خوراک سمیت بے شمار مسائل درپیش ہیں۔

سندھ کے وسیع و عریض اور دنیا کے سترہویں بڑے صحرا، کارونجھر کے پہاڑ، کوئلے کی کانوں، اور بجلی گھر کے حامل سندھ کے ضلع تھرپارکر میں زندگی کی تمام رونقیں بارش کی مرحون منت ہیں۔ سندھی زبان میں کہاوت ہے کہ ’وسے تہ تھر نہ تہ بر‘ یعنی ’بادل برسیں تو تھر ہے، ورنہ بیابان‘۔

پاک بھارت سرحد پر آباد تھرپارکر کی سات تحصیلیں مٹھی، چھاچھرو، ڈیپلو، ننگرپارکر، کلوئی، ڈاہلی اور اسلام کوٹ ہیں۔

ضلع کی آبادی 17 لاکھ 78 ہزار 407 ہے۔ یہاں ووٹرز کی تعداد 7 لاکھ 23 ہزار 591 ہے۔ مرد ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 92 ہزار 395 جبکہ 3 لاکھ 31 ہزار 196 خواتین ووٹرز ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد ضلع ہے جہاں ہندو ووٹرز کی اکثریت ہے۔ یہاں دو قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہیں۔

2018ء کے انتخابات میں ضلع سے دو قومی اور تین سندھ اسمبلی کی نشستیں پیپلزپارٹی جبکہ ایک نشست گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے حصے میں آئی تھیں۔

دوہزار چوبیس کے عام انتخابات کی گہما گہمی تو دن بدن بڑھتی جارہی ہے مگر تھرپارکر کے شہریوں کی اکثریت پیپلزپارٹی کی سابق حکومت کی کارکردگی سے نالاں نظر آتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ تھرپارکر کا سب سے اہم مسئلہ پینے کا صاف پانی ہے جسے عوام تک ابھی تک نہیں پہنچایا جاسکا۔

جی ڈی اے کے ارباب انور جبار کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے تھرپارکر کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا۔ دیہات اور شہر دونوں جگہ پانی نہیں ہے۔ تعلیم اور صحت کے مسائل بھی حل نہیں ہوئے۔

شکایات اور الزمات کے برعکس پیپلزپارٹی کے سابق ایم این اے مہیش کمار ملانی نے دعویٰ کیا کہ پیپلزپارٹی نے جتنے کام تھرپارکر میں کیے ہیں اتنے کسی اور ضلع میں نہیں ہوئے۔

2024ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں جی ڈی اے کے ساتھ آزاد امیدوار بھی میدان میں اترے ہیں۔ الیکشن کے دن ہی پتا لگ سکے گا کہ اس بار عوام کس کی جھولی میں کامیابی ڈالتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں