لکھاری پولیٹیکل اینڈ اینٹیگرٹی رِسک اینالسٹ ہیں۔
لکھاری پولیٹیکل اینڈ اینٹیگرٹی رِسک اینالسٹ ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نہ زیادہ کُول ہیں نہ نوجوان ہیں اور نہ ہی وہ فلسطینیوں کے حامی ہیں۔ غزہ میں امن کے لیے ان کی کوششوں سے نوجوان ڈیموکریٹکس کافی حد تک مایوس ہوئے ہیں جبکہ بڑی عمر کے ووٹرز مہنگائی کی وجہ سے نالاں ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار اس بار صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیانی کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ تو دیکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پاکستان کے لیے کیا معنیٰ رکھتی ہے؟

عمران خان کے ساتھ اچھے تعلقات اور کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کو یاد کرتے ہوئے پاکستانیوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کا ایک غلط نوستیلجیا (پرانی یاد) محسوس ہوتا ہے۔ لیکن 2019ء میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی (جس کے صرف ایک سال پہلے ٹرمپ نے پاکستان پر ’جھوٹ اور فریب‘ کا الزام لگایا تھا) دونوں کے مفاد میں تھی اور اس کی بنیاد افغانستان سے امریکی انخلا میں مدد کے لیے طالبان کے ساتھ بات چیت میں پاکستان کی حمایت میں تھی۔

پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی وضاحت ہمیشہ سیکیورٹی کے حوالے سے کی جاتی رہی ہے لیکن اب وقت بدل گیا ہے اور ممکنہ طورپر دوسری مدت کے لیے آنے والی ٹرمپ انتظامیہ (بائیڈن انتظامیہ کی طرح) دونوں ممالک کے تعلقات کو ترجیح نہیں دے گی۔ امریکا کے اہم مفادات یہ رہے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان ناقابل تلافی طور پر عدم استحکام کا شکار نہ ہو، پاک بھارت کشیدگی تنازع کی شکل اختیار نہ کرے اور یہ خطہ عالمی عسکریت پسندی کا گڑھ نہ بن جائے۔ تاثر یہی ہے کہ واشنگٹن بھی پاکستان کو مکمل طور پر چین کے اثرورسوخ میں آنے سے روکنا چاہے گا۔

2024ء میں بھی ایک عدم استحکام کا شکار پاکستان اب بھی جوہری ہتھیاروں سے لیس روس اور مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے تناظر میں عالمی منظرنامے میں زیادہ مشکلات پیدا نہیں کررہا۔ امریکا نے یہ بھی سیکھا ہے کہ جب ’مشکلات پیدا کرنے والی‘ ریاستوں (جیسے افغانستان، ایران، شام) پر بات آئے تو انہیں محدود رکھنا ایک اچھا آپشن ہے۔

بھارت کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکا علاقائی سلامتی کو سنبھالنے کے لیے نئی دہلی کا رخ کرے گا (اور ایسے میں مسئلہ کشمیر اٹھانا مثبت نہیں ہوگا کیونکہ ٹرمپ خود یوکرین کے متعدد علاقوں پر روس کو قبضے کی اجازت دے کر جنگ کو ختم کرنا چاہیں گے) اور اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ امریکا نے حال ہی میں القاعدہ اور داعش کا اپنے قیام کے بعد سے سب سے کمزور ہونے کا اندازہ لگایا ہے، ایسے میں عسکریت پسندی کا شکار پاکستان کے ساتھ امریکا کی مسلسل تعلقات بحالی کی کوششوں کی کوئی مضبوط وجہ نہیں ہے۔ باقی صرف امریکا کی چین کے ساتھ علاقائی اثر و رسوخ کی جنگ ہے۔

اسی تناظر میں اعزاز چوہدری نے حال ہی میں اس جانب اشارہ کیا کہ امریکا نے پہلے ہی چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کو اپنے اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر چُن لیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کا چین کے ساتھ مقابلہ طاقت کے کھیل، عالمی اثر و رسوخ کے حوالے سے کم بلکہ معاشی غلبہ حاصل کرنے کے حوالے سے زیادہ ہوگا۔ سب سے پہلے امریکا والی ذہنیت کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ چین کے اتحادیوں کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائیں گے بلکہ چینی درآمدات پر بھاری ٹیرف لگا کر چینی کمپنیوں کو پریشان کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

دوسری جانب چین پر ڈونلڈ ٹرمپ کا معاشی دباؤ ڈالنا پاکستان کے لیے اچھی خبر نہیں ہوگی۔ پاکستانی اشیا غیر ملکی درآمدات پر لگائے جانے والے ٹیرف کے تابع ہوں گی جوکہ ایک مسئلہ ہے کیونکہ امریکا طویل عرصے سے پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی مقام بنا ہوا ہے۔ چین کے لیے مزید اقتصادی بے یقینی صورتحال کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ بیجنگ کی جانب سے قرضوں کی وصولی پر زیادہ زور دیا جائے گا اور اسی لیے سی پیک کی صورت میں پاکستان پر مزید دباؤ آئے گا۔

امکان یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کی فوجی امداد میں کمی، روس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے، نیٹو چھوڑنے کی دھمکی دینے یا نیٹو اتحادیوں سے دفاعی اخراجات میں اضافے کا مطالبہ کرکے امریکا اور یورپ کشیدگی بڑھا دیں گے۔ یہ پیش رفت عالمی سیاسی اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال کا باعث بنے گی جس کے نتیجے میں عالمی جنوب کے چیلنجز کو مجموعی طور پر نظرانداز کیا جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کو بڑھا سکتے ہیں۔ اس سے خلیجی ریاستوں کے حمایت یافتہ مشرق وسطیٰ کے ممالک (جو اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کے منصوبوں کو روکنے پر مجبور ہیں) اور چین کی حمایت کرنے والے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ امریکا-اسرائیل آمنے سامنے آسکتے ہیں۔ اس سے پاکستان کے لیے اپنے خلیجی اتحادیوں اور دیگر اہم مسلم ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو تقویت دینے کے کچھ مواقع پیدا ہوں گے۔

ان تحفظات سے ہٹ کر، ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت پاکستان پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ موسمیاتی تبدیلی کا انکار کرتے ہیں اور ان کی جانب سے لوس اینڈ ڈیمیج فنڈز کے لیے یا دیگر موسمیاتی مالیاتی اقدامات کو چلانے کے لیے جرات مندانہ قدم اٹھانے کا امکان نہیں ہے۔ اگر اگلے امریکی صدر نے موسمیاتی تبدیلی کو عالمی ایجنڈے سے ہٹا دیا تو پاکستان جیسے موسمیاتی خطرے سے دوچار ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

امیگریشن پر ٹرمپ کی بیان بازی بھی پاکستانیوں کو نقصان پہنچائے گی۔ وہ ترقی یافتہ دنیا میں دائیں بازو کی تارکین وطن مخالف جماعتوں کی حوصلہ افزائی کریں گے جس سے قانونی امیگریشن پر مزید پابندیاں لگ جائیں گی۔ پاکستان سے تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر، اگر امیگریشن پابندیاں لگ گئیں تو یہ نقصان دہ ہوگی اور مستقبل کی ترسیلات کو محدود کر دے گی جو ہماری معیشت کو بحرانوں سے نکلنے میں مدد کرتی ہیں۔

خلاصہ یہ کہ ٹرمپ کی صدارت ملک کی ان طاقتوں کی مدد کرے گی جو آمرانہ رجحانات کو نظر انداز کرنے کے حق میں ہیں لیکن یہ ان لوگوں کے لیے مزید مصائب کا باعث بنے گی جنہیں موسمیاتی بحران، معاشی عدم مساوات سے نمٹنے اور انسانی حقوق کے دفاع کے لیے مضبوط عالمی رہنماؤں کی ضرورت ہے۔


یہ مضمون 8 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں