لکھاری، دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری، دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

حکمران جماعت کے لیے یہ جشن کا دن تھا۔ یہ ایک ایسا دن تھا جو سب کو بھارت کے مستقبل کے حوالے سے تشویش میں مبتلا کررہا تھا۔ اس دن بی جے پی نے وہ چال چلی جسے مئی میں منعقد ہونے والے بھارتی عام انتخابات کے لیے ان کی سب سے اہم چال کہا جارہا تھا۔

بظاہر ایودھیا کے رام مندر کا شاندار لیکن جلدبازی میں کیا گیا افتتاح ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیا گیا بالکل 2019ء میں پلوامہ حملے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی طرح یا پھر 2014ء میں مظفر نگر کے فسادات کے سیاسی مقاصد میں استعمال کی طرح۔

یہ وہ دن تھا جب اپوزیشن نے خاموشی سے اپنا ردِعمل دیا۔ اسی دن راہول گاندھی نے اتحاد اور انصاف کے لیے اپنے مشرق سے مغرب تک نکالے جانے والے مارچ میں بی جے پی کے زیر اقتدار آسام میں رکاوٹوں کا مقابلہ کیا۔ یہی وہ دن تھا کہ جب ممتا بنرجی نے کولکتہ کے دُرگا مندر میں پوجا کی تاکہ فرقہ وارانہ اتحاد کے لیے ضروری مہم کا آغاز کیا جاسکے۔ یہ وہ دن تھا جب اپوزیشن کے کئی اہم رہنماؤں نے ایودھیا کے دورے کی حکومتی دعوت کو شائستگی سے رد کردیا تھا۔

یہ بات واضح ہے کہ آئندہ انتخابات میں بی جے پی کی مذہبی قوم پرست سیاست کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو آلائنس (انڈیا) ہے۔ یہ طاقتور علاقائی رہنماؤں کا اتحاد ہے جو وزیراعظم نریندر مودی کو بھاری اکثریت سے شکست دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ اپوزیشن واقف ہے کہ جب ہٹلر اقتدار میں آیا تو نیشنل سوشلسٹ پارٹی کے پاس 37 فیصد ووٹ تھے اور اتفاق سے بی جے پی کو 2019ء میں جب اقتدار ملا تو انہیں بھی تقریباً اتنے فیصد ووٹ ہی ملے تھے۔

لیکن نازی جرمنی اور ہندوتوا کے بھارت کی موجودہ قوت میں فرق ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد ہٹلر نے انتخابات نہیں کروائے تھے۔ انتخابات نہ کروانے کا امکان مستقبل قریب میں بھارت میں موجود نہیں۔ یہ ایک واضح فرق ہے اور یہی اپوزیشن کا منصوبہ ہے کہ مودی حکومت کو اقتدار میں نہ آنے دے۔ انہیں بقیہ 63 فیصد ووٹرز کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ ایودھیا کے رام مندر کا جلدبازی میں کیا گیا افتتاح 2024ء کے انتخابات میں اپوزیشن کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اگر بی جے پی ایودھیا میں رام مندر کی تقریب سے یہ امید کرتی ہے کہ یہ ان کی حمایت کی عکاسی کرے گی تو اپوزیشن کو اس سے پریشان نہیں ہونا چاہیے بشرط یہ کہ امن قائم رہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بی جے پی نے لوک سبھا کے دو انتخابات میں تشدد اور کشیدگی کو فروغ دیا۔ 2014ء میں بھارت کو اندرونِ ملک فسادات کا سامنا تھا جبکہ 2019ء میں سرحد پار کشیدگی چل رہی تھی۔

اپوزیشن کو کسی بھی طرح کے ممکنہ پُرتشدد حالات کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کے نزدیک اگر رام مندر کی چال ناکام ہوجاتی ہے تو اُسی پرانے ہتھکنڈے کا سہارا لیا جائے گا۔ یہ ان دو چیلنجز میں سے ایک ہے جس سے نمٹنے کے لیے اپوزیشن کے اتحاد کو منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔

دوسرا چیلنج قابلِ اعتراض صدارتی روایت ہے۔ چونکہ اپوزیشن ایک یونٹ نہیں بلکہ ایک اتحاد کے طور پر انتخابات میں حصہ لے گی اس لیے ان کے درمیان تکنیکی خامی کا امکان ہے۔

اگر بی جے پی واضح اکثریت کے بغیر سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے تو صدر کا نریندر مودی کو حکومت بنانے کی دعوت دینا تکنیکی طور پر درست ہوگا اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ مودی صاحب نے اپوزیشن جماعتوں کو تباہ کرنے کے لیے کیسے منصوبے تیار کررکھے ہیں۔ ایودھیا کی افتتاحی تقریب میں خرچ کی جانے والے رقم سے ہم نے دیکھ ہی لیا کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے پیسوں کی قلت بھی نہیں۔

یہ وہ روایت جو راجیو گاندھی نے شروع کی جوکہ 1989ء میں سب سے بڑی جماعت کی سربراہی کے باوجود اکثریت حاصل نہیں کرپائے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔ اور پھر 1996ء میں اٹل بہاری واجپائی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جنہیں حکومت بنانے کے لیے اکثریت نہیں مل پائی اور انہیں 13 دنوں بعد ہی وزیراعظم کی کرسی سے استعفیٰ دینا پڑا۔ ایودھیا میں رام مندر کی تقریب کے بجائے یہ وہ اصل چیلنجز ہیں جن کا اپوزیشن کو سامنا ہے۔

ہم یہ تو نہیں جانتے کہ نریندر مودی کے لیے 22 جنوری کی تاریخ کیسی رہی لیکن اس مندر کا افتتاح یقیناً مختلف لوگوں کے لیے مختلف معنی رکھتا ہے۔

سناتن دھرم کے چار شنکراچاریوں میں سے ایک کے ٹی وی انٹرویوز کے مطابق وارانسی کے ایک نجومی پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ مندر کے افتتاح کے لیے جنوری میں ایک مبارک دن تلاش کریں حالانکہ مندر کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی تھی اور کچھ ماہ تک اس کے مکمل ہونے کا کوئی امکان بھی نہیں تھا۔ شنکراچاریوں نے نشاندہی کی کہ مورتی نصب کرنے کی تقریب کے لیے مندر کا مکمل ہونا ضروری ہے۔ لیکن ان کی نشاندہی کا کیا فائدہ؟

22 جنوری کو دنیا کے وسیع منظرنامے پر بہت کچھ ہورہا تھا۔

یورپی یونین کا وفد مشرقِ وسطیٰ کی جانب روانہ ہوا تھا۔ رون ڈی سینٹس ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں امریکی صدارتی دوڑ سے دستبردار ہوگئے۔ فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے باسیوں کے لیے 22 جنوری ایک اور صدمے کا دن تھا، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار تھے جو خود یورپ میں اُنہیں حالات کا سامنا کرچکے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی زندگیوں میں بھی ایک خوفناک دن تھا جو روس اور یوکرین کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ کے متاثرین ہیں۔

یہ وہ دن تھا جب گجرات فسادات میں مسلم خاتون کا ریپ کرنے والے تمام 11 سزا یافتہ مجرمان واپس جیل چلے گئے۔ رپورٹس کے مطابق بی جے پی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ان کی قبل از وقت رہائی میں توسیع سے سپریم کورٹ کے انکار کی تعمیل کرنے کے لیے انہوں نے اتوار کی شب 11 بج کر 45 منٹ پر خود کو پولیس کے حوالے کیا۔

سپریم کورٹ نے تکنیکی بنیادوں پر ان کی رہائی منسوخ کردی تھی۔ یہ دن بلقیس بانو کے لیے انتہائی اذیت ناک ہوگا، اگرچہ ان کے مجرمان کو ججوں نے جیل واپس بھیج دیا لیکن ایودھیا کے مناظر دیکھ کر انہوں نے 2002ء میں گجرات کے فرقہ واریت اور نفرت کے کلچر کو ایک بار پھر محسوس کیا ہوگا۔

مذہب ایک غیر معمولی چیز ہے۔ مہاتما گاندھی رام کے پُرجوش عقیدت مند تھے جبکہ ستم ظریفی دیکھیں کہ ان کے قاتل کا نام نتھورام تھا جس کے معنیٰ بھگوان رام ہے۔ ایسا ہونا غیرمعمولی نہیں ہے۔ کسی بھی عقیدے کے ماننے والے عموماً اپنے ہم عقیدہ لوگوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔

لیکن جیسا کہ ان کے پسندیدہ بھجن میں بتایا گیا ہے گاندھی جی کے رام کمزور لوگوں کے محافظ تھے۔ گاندھی نے رام کے بارے میں جو بتایا اس کی نفی ایک نئے فرقے کی تفرقہ انگیز تشکیل سے ہوئی جس کا اظہار نریندر مودی نے ایودھیا میں کیا۔


یہ مضمون 23 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں