صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف نئے تشکیل شدہ 8 جماعتی اتحاد کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے مشترکہ امیدوار ہیں اور آج دوسری بار اس منصب کا انتخاب جیتنے کے لیے تیار دکھائی دے رہے ہیں، ان کا مقابلہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نامزد کردہ امیدوار عمر ایوب خان سے ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک کے نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) اتوار کو ہوگا۔

دونوں امیدواروں نے کاغذات نامزدگی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائے، جنہیں اسپیکر ایاز صادق نے جانچ پڑتال کے بعد دونوں اطراف کے امیدواروں کی موجودگی میں درست قرار دیا۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق شہباز شریف کی جانب سے 8 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے جبکہ 4 کاغذات نامزدگی عمر ایوب خان نے جمع کرائے جن پر مختلف تجویز کنندگان اور حمایت کنندگان کے دستخط تھے۔

عمر ایوب نے شہباز شریف کے خلاف اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ شہباز شریف کو ان کی قومی اسمبلی کی نشست فارم 47 میں ہیرپھیر کے ذریعے تحفے میں دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف وزیر اعظم کا انتخاب نہیں لڑ سکتے کیونکہ وہ فارم 45 کے مطابق حلقہ ہار چکے ہیں۔

عمر ایوب نے ’ایکس‘ پر ایک ٹوئٹ میں کہا کہ شہباز شریف کو ناجائز طریقے سے رکن قومی اسمبلی کا حلف دلایا گیا ہے لہٰذا وہ وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نہیں ہو سکتے، تاہم عمر ایوب کا یہ اعتراض مسترد کر دیا گیا۔

جمعہ کو لگ بھگ یک طرفہ مقابلے میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدے حاصل کرنے کے بعد 8 جماعتی اتحاد وزیراعظم کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے پراعتماد نظر آرہا ہے۔

جبکہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی (جو آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے تھے اور بعد میں سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگئے) کی جانب سے آج 8 فروری کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ایوان میں شور شرابہ جاری رہنے کا امکان ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے علاوہ شہباز شریف کو پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)، پاکستان مسلم لیگ (ضیا) ، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) اور نیشنل پارٹی (این پی) کی حمایت حاصل ہے جن کے اراکین کی مجموعی تعداد 205 بنتی ہے، ایم کیو ایم (پاکستان) اور پیپلزپارٹی کے 2 منتخب اراکین قومی اسمبلی نے ابھی حلف نہیں اٹھایا ہے۔

قائد ایوان بننے کے لیے شہباز شریف کو 336 رکنی ایوان میں 169 ووٹ درکار ہیں، دوسری جانب پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ اپوزیشن کے پاس 102 اراکین قومی اسمبلی ہیں جن میں سے ایک رکن نے حلف نہیں اٹھایا ہے، دریں اثنا جمعیت علمائےا سلام (ف) اور بی این پی (مینگل) کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے انتخاب کے بائیکاٹ کا امکان ہے۔

فی الوقت 304 اراکین قومی اسمبلی حلف اٹھا چکے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن نے اب تک خواتین اور اقلیتوں کی 23 مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن روک رکھا ہے۔

جمعہ کو مسلم لیگ (ن) کے ایاز صادق نے پی ٹی آئی سے تعلق کرنے والے اپنے حریف عامر ڈوگر کے مقابلے میں 199 ووٹ حاصل کرکے اسپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب جیت لیا، عامر ڈوگر نے ایوان میں 91 ووٹ حاصل کیے۔

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کے احتجاج کے درمیان خفیہ رائے شماری کے ذریعے کرائے گئے جنہوں نے اسے ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستیں مختص کیے بغیر ایوان نامکمل ہے۔

جمعیت علمائے اسلام-ف کے 8 ارکان اور بی این پی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل (جنہوں نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا) نے آج اتوار کو وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں حصہ لینے کے بارے میں کوئی واضح اعلان نہیں کیا۔

تاہم مولانا فضل الرحمٰن کراچی پہنچ چکے ہیں جوکہ بظاہر اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔

قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کے لیے الیکشن آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت کرائے جائیں گے، آرٹیکل 91 (3) کہتا ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کسی بھی دوسری مصروفیت کو چھوڑ کر بغیر کسی بحث و مباحثے کے اپنے کسی مسلمان رکن کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے منتخب کرنے کی کارروائی آگے بڑھائے گی۔

آئین کے آرٹیکل 91(4) کے مطابق وزیراعظم کا انتخاب قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت کے ووٹوں سے کیا جائے گا، بشرطیکہ اگر کوئی رکن پہلی رائے شماری میں مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرسکے تو ان 2 ارکان کے درمیان دوسری رائے شماری کرائی جائے گی جن کو پہلی رائے شماری میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوں گے اور جو رکن موجود اراکین کے ووٹوں کی اکثریت حاصل کرلے گا اسے وزیر اعظم منتخب کرنے کا اعلان کردیا جائے گا۔

وزیراعظم کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہے؟

وزیراعظم کے انتخاب کا طریقہ کار ’قومی اسمبلی 2007‘ کے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار کے باب 4 اور دوسرے شیڈول میں واضح کیا گیا ہے۔

دوسرے شیڈول کے مطابق ووٹنگ شروع ہونے سے قبل اسپیکر کی جانب سے ہدایت دی جائے گی کہ 5 منٹ کے لیے گھنٹیاں بجائی جائیں تاکہ غیرموجود اراکین ایوان میں حاضر ہوجائیں، گھنٹیاں بجنا بند ہونے کے فوراً بعد لابی کے تمام داخلی راستوں کو مقفل کر دیا جائے گا اور ہر داخلی دروازے پر تعینات اسمبلی کا عملہ ووٹنگ کے اختتام تک ان داخلی راستوں سے داخلے یا باہر نکلنے کی اجازت نہیں دے گا۔

اس کے بعد اسپیکر امیدواروں کے حق میں ووٹ دینے کے خواہشمند اراکین سے کہے گا کہ وہ داخلی راستے سے مختص شدہ لابیوں میں جائیں جہاں ووٹ کے اندراج کے لیے ٹیلر تعینات ہوں گے۔

ہر رکن اپنی باری پر ٹیلروں کے ڈیسک پر پہنچنے پر قواعد کے تحت انہیں الاٹ کردہ ڈویژن نمبر بتائے گا، اس کے بعد ٹیلرز اُس رکن اسمبلی کا نام پکارتے ہوئے ڈویژن کی فہرست میں مذکورہ نمبر کو نشان زد کریں گے۔

ووٹ صحیح طریقے سے ریکارڈ کیے جانے کو یقینی بنانے کے لیے رکن قومی اسمبلی اُس وقت تک وہاں سے نہیں ہٹے گا جب تک کہ وہ واضح طور پر ٹیلر کو اپنا نام پکارتے ہوئے نہ سن لے، رکن قومی اسمبلی اپنے ووٹ کا اندراج کروانے کے بعد اس وقت تک چیمبر میں واپس نہیں جائیں گے جب تک کہ گھنٹیاں نہ بج جائیں۔

جب اسپیکر قومی اسمبلی کو معلوم ہوجائے کہ ووٹ دینے کے خواہشمند تمام اراکین نے اپنے ووٹ درج کر والیے ہیں، تو وہ اعلان کریں گے کہ ووٹنگ ختم ہو گئی ہے، اس کے بعد سیکرٹری قومی اسمبلی ڈویژن کی فہرست اکٹھی کرے گا، ریکارڈ شدہ ووٹوں کی گنتی کرے گا اور گنتی کا نتیجہ اسپیکر کو پیش کرے گا۔

اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ہدایت دی جائے گی کہ 2 منٹ کے لیے گھنٹیاں بجائی جائیں تاکہ اراکین چیمبر میں واپس جا سکیں، گھنٹیاں بجنے کے بعد اسمبلی میں اسپیکر نتیجے کا اعلان کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں