پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پولیس کی جانب سے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) شہربانو نقوی کی سربراہی میں خواتین کی آگاہی ریلی نکالی گئی جس کی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہوگئیں۔

اے ایس پی شہربانو نقوی کی سربراہی میں منعقد کی گئی آگاہی واک میں خواتین نے عربی لفظ حلوہ کے پوسٹر اٹھا رکھے تھے۔

ساتھ ہی خواتین نے کبھی نہیں، عورتوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ جیسے پوسٹر بھی اٹھا رکھے تھے۔

آگاہی واک میں پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران سمیت زندگی کے مختلف شعبہ جات سے وابستہ خواتین نے بھی شرکت کی اور اے ایس پی شہربانو نے آگاہی واک کی سربراہی کی۔

آگاہی واک کے اختتام پر اے ایس پی شہربانو نے خطاب کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ لاہور میں عربی حروف تہجی کا لباس پہنے خاتون پر 200 افراد نے حملہ کیا تو وہاں ارد گرد موجود دیگر 600 افراد خاتون کی مدد کے لیے کیوں نہیں آئے؟

انہوں نے کہا کہ لوگوں کی حفاظت کرنا یقینی طور پر پولیس کا کام ہے لیکن عام افراد کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد لوگوں کی حفاظت کریں۔

اے ایس پی شہربانو کی سربراہی میں پولیس کی آگاہی واک ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب کہ گزشتہ ہفتے لاہور میں 26 فروری کو عربی حروف کی کیلیگرافی کے لباس پہننے پر ایک خاتون کو مبینہ توہین مذہب کے الزام میں ہجوم نے مارنے کی کوشش کی تھی، جنہیں پولیس نے بروقت پہنچ کر بچایا تھا۔

پولیس کے مطابق خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ شاپنگ کرنے گئی تھی، خاتون نے ایک لباس پہنا ہوا تھا جس میں کچھ عربی حروف تہجی لکھے ہوئے تھے جس پر لوگوں نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور خاتون سے فوری طور پر لباس کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔

ہجوم نے الزام عائد کیا تھا کہ خاتون کے لباس کے پرنٹ پر قرآنی آیات لکھی ہیں۔

اس دوران اچھرہ بازار میں لوگوں کی بڑی تعداد اکٹھا ہو گئی اور مشتعل ہجوم نے خاتون کو ہراساں کرنا شروع کر دیا اور انہیں جان سے مارنے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے خاتون کو بچایا تھا۔

خاتون کو ہجوم سے بچانے کے بعد اے ایس پی شہربانو کی تعریفیں کی گئیں اور آرمی چیف سے بھی خاتون افسر کی ملاقات کروائی گئی جب کہ سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان نے شہربانو نقوی کو اہل خانہ سمیت بطور شاہی مہمان سعودی عرب بلا لیا۔

خاتون افسر کی سوشل میڈیا پر بھی تعریفیں کی جا رہی ہیں، تاہم بعض افراد ان کی اتنی زیادہ تعریفیں کرنے پر نالاں دکھائی دیتے ہیں، ان کے مطابق پولیس کا کام عوام کی حفاظت کرنا ہے اور خاتون نے بطور پولیس افسر اپنی ذمہ داری ادا کی، اس لیے انہیں ہیرو کرکے پیش کرنا مناسب نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں