لکھاری ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔
لکھاری ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے، سازشوں اور مداخلت سے اس بات کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ کوئی بھی جماعت پارلیمان میں اکثریت حاصل نہ کرے۔ جمہوری عمل میں اعتماد کرکے ووٹ ڈالنے آنے والے ووٹرز کی بڑی تعداد، آج مایوسی کا شکار ہیں۔

قومی اسمبلی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو اب دوسری بڑی جماعت بنادیا گیا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انہیں آئین کے تحت خواتین اور اقلیتیوں کے لیے مخصوص نشستیں دینے سے انکار کردیا ہے جبکہ ان کے بانی جلد بازی میں نمٹائے گئے مقدمات (جن میں آئینی عمل کی خلاف ورزیاں بھی ہوئیں) میں قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

ووٹوں کی گنتی کے عمل میں دھاندلی سے متعلق کچھ نہیں کیا جارہا یا پھر تاخیر کی جارہی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح یہ تمام معاملات دو سال قبل شروع ہوئے تھے۔ اگرچہ سب سے زیادہ اعتراضات پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ امیدواروں نے دائر کیے ہیں لیکن کچھ سیاسی جماعتیں زمینی حقائق کی بنیاد پر یا انجینئرنگ کے عمل سے آنے والے متوقع نتائج سے خوش بھی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) چوتھی بار نواز شریف کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھانا چاہتی تھی لیکن حکومت میں آنے کے باوجود ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن بعدازاں مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا فیصلہ کرنے کے باوجود انہوں نے کابینہ کی وزارتیں لینے سے انکار کردیا۔ پی ٹی آئی کے ووٹرز عمران خان کو وزیراعظم کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے لیکن وہ جیل میں ہیں جبکہ ان کی جماعت کو انتخابی نشان اور آئین کے مطابق مخصوص نشستیں دینے سے بھی انکار کردیا گیا ہے۔

تو نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ سیاسی جماعتیں پانچ سال سے ایک دوسرے کو غیر قانونی قرار دے رہی ہیں، واضح مینڈیٹ نہ ملنا، عدالتوں کی جانب سے سزائیں یا غلط طریقے سے ملنے والی مخصوص نشستیں اور اس فہرست میں اضافہ جاری ہے۔ جمہوری استحکام کے لیے اس سب کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ معاشی استحکام کے لیے سازگار ماحول ہے؟ کیا حقوق کا تحفظ ہوگا؟ آنے والے پانچ سالوں کے لیے کیا اشارے ملتے ہیں؟

شہبار شریف کی حکومت ایک ایسے وقت میں آئی ہے کہ جب صحافیوں کو اپنے کام کی پاداش میں قید و بند کی سختیاں جھیلنی پڑرہی ہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کی بندش، اپوزیشن رہنماؤں کو ریاستی ٹی وی چینلز پر دکھایا نہیں جاتا اور اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کرنے والے پرامن مظاہرین کو گرفتار کیا جاتا ہے۔

موبائل فون نیٹ ورک کی بندش سے انتخابی عمل پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیے بغیر انتخابات کے حوالے سے کوئی بھی بات ادھوری ہے۔ کوئی منطقی جواز پیش کیے بغیر صرف سیکیورٹی خدشات کو عذر بنا کر، موبائل نیٹ ورکس بند کرنے سے نہ صرف ممکنہ ووٹر ٹرن آؤٹ کم ہوا بلکہ اس نے نتائج کی ساکھ کو داغ دار کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا کیونکہ پریزائیڈنگ افسران الیکشن کمیشن کے سسٹم پر فارم 45 اپ لوڈ نہیں کرسکے۔

نتائج میں تاخیر نے پورے انتخابی عمل پر سوالات کھڑے کیے جبکہ یہ تاخیر کی کوئی معذرت قابلِ قبول نہیں۔ حتیٰ کہ حکومت کے حامیوں نے بھی اس اقدام پر تنقید کی جبکہ اس نے انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ تحقیقی تنظیم پلڈاٹ اس سال انتخابی نتائج کے انتظام کے لیے 40 فیصد اسکور ظاہر کرتی ہے، انتخابات پر ووٹرز کے اطمینان کی شرح 40 فیصد ہے جوکہ تاریخ میں سب سے کم ہے۔ یہ آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں منعقد ہونے والے 2002ء کے انتخابات کی شرح سے مماثلت رکھتی ہے۔

پاکستان میں ایکس کی حالیہ بندش اداروں کی ناکامی کی علامت ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، آئی ٹی اور وزارت داخلہ سمیت ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا قانونی مینڈیٹ رکھنے والے کسی بھی ادارے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی ملک گیر بندش کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ یہ بندش پاکستان میں آئی ٹی سے متعلقہ کاروبار کرنے کے خواہشمند افراد کو کیا پیغام دیتی ہے؟ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بندش کی تحقیقات، اس کی بحالی کا حکم دینے کے حوالے سے کیا کام کرے گی؟ یا وزیراعظم اور ان کی کابینہ وی پی این کا استعمال کرتے ہوئے ٹوئٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور نگران حکومت کی طرح یہ تاثر دیں گے کہ سب ٹھیک ہے؟

ریاست کی جانب سے اپنے اوپر اٹھنے والی تنقیدی آوازوں کو دبانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کی قومی اسمبلی میں تقاریر کو ریاستی چینلز پر نشر نہیں کیا جارہا۔ صحافی اسد علی طور کو پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ء (جوکہ صحافیوں کو سزا دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے) کے تحت درج مقدمے میں کئی روز تک ایف آئی اے کی تحویل میں رہنے کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔

صحافیوں کے تحفظ کے ایکٹ جس کے تحت صحافی اپنے ذرائع نہیں بتا سکتا، اس کے باوجود حکام اسد طور پر اپنے ذرائع ظاہر کرنے پر دباؤ ڈالتے رہے۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی جارہی ہے جس میں یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ اسد طور اپنے دعووں کے حوالے سے شواہد پیش کرنے میں ناکامی پر غلط معلومات پھیلارہے ہیں۔ صحافت کے اس بنیادی اصول کو فراموش کیا جارہا ہے جس کے تحت صحافیوں کے ذرائع کو شناخت ظاہر نہ کرنے کا تحفظ حاصل ہے۔

اسی طرح ایک اور صحافی عمران ریاض خان جن کا یوٹیوب چینل اسد طور کی طرح متحرک ہے، انہیں ’کرپشن‘ کیس میں ضمانت کے بعد ’دہشتگردی‘ کے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے دونوں صحافیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ عمران ریاض خان اور اسد طور دونوں 16 فروری کو ریلیز ہونے والی بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم ’پاکستان: جرنلسٹس انڈر فائر‘ کا موضوع تھے۔

جہاں ایک جانب یہ سب ہورہا ہے، پی پی پی کے ایک سینیٹر جن کی پارٹی رکنیت رواں سال کے آغاز میں معطل کی گئی تھی، انہوں نے ایوانِ بالا میں ایک قرارداد جمع کروائی جس میں پاکستان میں ’نوجوانوں کے تحفظ‘ کے لیے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ غالباً وہ اس بات سے واقف ہیں کہ سوشل میڈیا اور آئی ٹی سیکٹر ان چند شعبہ جات میں سے ہے جوکہ پاکستان میں ترقی کررہا ہے۔ بدقسمتی سے بے یقینی اور پابندیاں اس شعبے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے سندھ اسمبلی کی نشست پر کامیاب قرار دیے جانے کے باوجود نشست چھوڑ کر جماعتِ اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن نے جس وقار کا مظاہرہ کیا، غلط نتائج کا فائدہ اٹھانے والے تمام سیاستدانوں کو ان کی پیروی کرنی چاہیے۔

انہیں سیاستدانوں کی اپنی جماعت سے جبری استعفوں اور سیاسی جماعتوں میں جبری شمولیت کی بھی مذمت کرنی چاہیے۔ اعلیٰ عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ عوام کے مینڈیٹ کی حفاظت کرے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف کھڑے ہوں۔ بصورت دیگر ہم خود کو بحیثیت ملک اپنے اداروں کو مکمل ناکامی کے دہانے پر پائیں گے۔

جبری طور پر جمہوریت کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ قوم کو جمہوریت قائم رکھنے کے لیے متحد ہونا ہوگا اور ’ریڈ لائنز‘ بنانا ہوں گی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں