لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

فرانسیسی فلسفی اور مصنف البرٹ کامو کا قول ہے، ’آزاد پریس اچھا یا برا ہوسکتا ہے لیکن یقینی طور پر آزادی کے بغیر پریس صرف برا ہی ہوسکتا‘۔

ہفتے کو صحافی اسد طور کو بلآخر ضمانت مل گئی۔ انہیں ضمانت ملنے میں 3 ہفتے لگے جس میں ان کے مقدمے کی بازگشت ایک عدالت سے دوسری عدالت اور پھر اس کی گونج عدالت عظمیٰ میں بھی سنی گئی۔ جب انہیں پہلی بار تفتیش کے لیے بلایا گیا تو ان کے وکلا نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی لیکن عدلیہ نے اسے ضروری نہیں سمجھا اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

اور پھر باری آئی اس عمل کی جسے ہمارے ملک میں انصاف کہا جاتا ہے۔ استغاثہ تفتیش کے لیے ملزم کو اپنی تحویل میں لینے کا مطالبہ کرتی ہے جبکہ اسد طور کے وکلا اور فیملی بے بسی سے سب دیکھتے ہیں اور اس دن کا انتظار کرتے ہیں کہ عدالت مہربان ہوکر ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دے تاکہ ضمانت کا امکان پیدا ہوسکے۔

اسد طور کے مقدمے میں ایف آئی اے نے ان سے تفتیش کی، ایک بار پھر انہیں ایک بار پھر تفتیش کے لیے طلب کیا اور انہیں گرفتار کرلیا۔ ایف آئی اے کو ان سے ’تفتیش‘ کرنے کے لیے 5 دنوں کا وقت دیا گیا لیکن ایجنسی نے جج سے مزید وقت طلب کیا اور اسد طور کو مزید چند روز کے لیے ایف آئی اے کی تحویل میں دے دیا گیا۔ اس کے بعد ڈان کی اسٹوری کے مطابق ایف آئی اے کو ’ان سے کچھ چیزیں لینے کے لیے مزید وقت‘ درکار تھا۔ لیکن خوش قسمتی سے جج نے اس بار استدعا مسترد کردی اور اسد طور کو جیل بھیج دیا۔

دوسری جانب اسد طور کے معاملے کی گونج سپریم کورٹ میں بھی سنی گئی جب وکیل صلاح الدین احمد نے اس معاملے کا ذکر چیف جسٹس کے سامنے کیا جو اتفاق سے چند سال پہلے اسد طور پر حملے کا مقدمہ سن رہے تھے۔ وکیل نے چیف جسٹس کو بتایا کہ جس صحافی پر حملے کے مقدمے کی سماعت کی جارہی ہے وہ صحافی ایک وقت سلاخوں کے پیچھے ہے۔

جج نے تفصیلات طلب کیں اور اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ ایف آئی آر میں اسد طور کے خلاف کچھ الزامات ایسے ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں۔ اسد طور کے اقربا بہت خوش تھے کیونکہ اگر اٹارنی جنرل پبلک میں یہ تبصرہ دے رہا ہے کہ ایف آئی آر میں گڑ بڑ ہے تو ایسے میں ضمانت ہونا آسان ہے۔ جیسے پاکستان میں ہر کام کے پیچھے منطق ہوتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے صرف تسلیم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اگر وہ ان تمام لوگوں کے مقدمات میں ملوث ہونے لگیں جو غلط الزامات پر قید کاٹ رہے ہیں تو سنگین مقدمات کی پیروی کون کرے گا؟

اس کے علاوہ مقدمے کی کارروائی جاری ہے۔ انتہائی مصروف جج کے پاس اتنے سارے مقدمات تھے کہ انہوں نے کئی دنوں کے بعد جمعرات کو اسد طور کے مقدمے کی سماعت کی۔ اس روز تفتیشی افسر بیمار ہوگئے اور وہ ’اسپتال میں داخل‘ ہوگئے، تو مقدمے کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔ پریزائیڈنگ جج نے کہا کہ وہ پیر سے پہلے مقدمے کی سماعت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے اپنے ساتھ کھڑے لوگوں کو بتایا کہ وہ جمعے کو مصروف تھے اور ہفتے کے روز وہ کام نہیں کرتے۔

وکلا اسلام آباد ہائی کورٹ گئے جہاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پریزائیڈنگ جج کو سماعت کے لیے وقت نکالنے کو کہا۔ ہفتے کو اس طور کی ضمانت کا حکم دیا گیا اور اس دفعہ ایف آئی اے نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔ شام میں صحافی اپنے گھر تو آگئے لیکن ان پر اب بھی مقدمہ چل رہا ہے۔ ایف آئی آر کے متعلق اٹارنی جنرل کے دیے گئے بیان کے باوجود اسد طور کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے۔

اسی دوران عمران ریاض خان کو لاہور سے گرفتار کرلیا گیا لیکن ان کی ضمانت نے اتنا وقت نہیں لیا جتنا اسد طور کی ضمانت نے لیا۔ یہ وہی شخص ہیں جو گزشتہ موسمِ گرما میں کئی مہینوں کے لیے لاپتا ہوگئے تھے۔ پھر وہ واپس آئے لیکن ان کی شخصیت دیکھ کر گمان ہورہا تھا کہ انہیں خوب تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان سب کے باوجود کسی نے سوچا کہ انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا جانا چاہیے۔ ان کے اقربا کو شکرگزار ہونا چاہیے کہ وہ گرفتار ہوئے لاپتا نہیں۔

دونوں واقعات ایسے وقت میں پیش آئے کہ جب نئی حکومت چارج سنبھال رہی تھی۔ نئے وزیراطلاعات سے جب سوشل میڈیا ایپلیکیشنز کی بندش کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بحث کی کہ ایکس بند نہیں ہے۔ انہوں نے جواباً سوال پوچھا کہ کیا کسی نے اس کی بندش کا نوٹیفکیشن دیکھا ہے۔ وزیراطلاعات کا تعلق اسی جماعت سے ہے جنہوں نے دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ اسد طور پر حملے کے بعد ان سے ملاقات کی۔ ان میں سے چند جو پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ان کے ساتھ تصاویر بنوا رہے تھے، اب نہیں اسد طور کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ عمران خان بھی اقتدار میں نہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنی ہے۔

دونوں صحافیوں کی گرفتاریاں پاکستانی میڈیا کے بدلتے ہوئے منظرنامے کو ظاہر کرتی ہیں۔

اخبارات سے ٹی وی چینلز تک مین اسٹریم میڈیا اب ریاست کے لیے چیلنج نہیں رہا۔ اچھی ریٹنگ والے اردو نیوز چینلز اس حد تک محکوم ہوگئے ہیں کہ وہ ایسی رپورٹنگ اور تبصرے کررہے ہیں جو ریاست کے لیے قابلِ قبول ہوں۔ بلاشبہ توہین آمیز کلپس اور ریمارکس میڈیا میں آتے ہیں لیکن اس حوالے سے انتباہ جاری کیا جاتا ہے، مالکان کو خوفزدہ کیا جاتا ہے اور یوں ہر ایک کو انگلیوں پر رکھتے ہیں۔

اگرچہ مجموعی طور دیکھا جائے تو نشر ہونے والے مواد میں قابلِ اعتراض باتیں بہت کم ہوتی ہیں۔ اور اعتراض ہونا بھی کیوں چاہیے کہ جب رپورٹنگ کو صرف سیاستدانوں کی بیان بازی تک محدود کردیا گیا ہے۔ نیوز بلیٹن میں وزیراعظم، آرمی چیف، وزرائے اعلیٰ، اپوزیشن رہنماؤں اور فیصل واڈا یا جاوید لطیف جیسے باخبر لوگوں کے بیانات ہی غالب نظر آتے ہیں۔ بقیہ وقت ان واقعات کی گنتی میں لگا دیا جاتا ہے کہ کس سیاستدان نے کس سے ملاقات کی اور کس حکومتی عہدیدار نے کون سا اجلاس منعقد کیا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اتنا وقت ہوگیا کہ کسی نیوز چینل کو بند نہیں کیا گیا۔ اس کی ’ضرورت‘ نہیں پڑی حالانکہ یہ وہ حربہ تھا جسے سب سے پہلے پرویز مشرف نے آزمایا اور ان کے بعد بھی اسے اپنایا جارہا تھا۔ صحافی کو برطرف بھی کیا گیا جس ٹرینڈ کا آغاز بھی 2018ء کے انتخابات میں ہوا اور اب تک اس کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن یہ صحافیوں کو خاموش کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکا کیونکہ ان میں سے کچھ نے سوشل میڈیا کو اپنی آواز بنا لیا۔

اور اب یہ سلسلہ جاری ہے جس میں ریاستی جبر کی بدترین مثالیں ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ ارشد شریف کی موت یا عمران ریاض خان کا اغوا بھی اس سلسلے کے اہم واقعات ہیں۔ یا پھر مطیع اللہ جان کا اغوا اور پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ہونے والے اسی نوعیت کے دیگر واقعات۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کو روکنے یا محدود کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ دھمکیاں اور تشدد جاری رہے گا لیکن اگر تاریخ سے رہنمائی لی جائے تو یہ آوازیں خاموش نہیں ہوں گی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں