چترال کا سیلاب اور گلیشیائی جھیلیں

اپ ڈیٹ 06 اگست 2015
چترال میں سیلاب سے جانی نقصان تو کم ہوا لیکن انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا۔
چترال میں سیلاب سے جانی نقصان تو کم ہوا لیکن انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا۔

ترجمہ: شبینہ فراز

چالیس سالہ چرواہا احمددین، جنہیں گاؤں کے لوگ احمتی کہہ کر پکارتے ہیں، ان دنوں کسی حد تک ہیرو کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ احمد دین پاکستان کے ضلع چترال میں ریشن گاؤں کے قریب رہائش پذیر ہیں۔ اکتیس جولائی 2013ء کو احمددین نے ایک خوفناک آواز سنی، جیسے بادل گرج رہے ہوں یا بہت سے شیر دھاڑ رہے ہوں۔ اُن کو اندازہ ہوگیا کہ کوئی بہت غیرمعمولی اور خطرناک واقعہ رونما ہونے والا ہے۔ انہوں نے اپنے حواس پر قابو پایا اور فوراً نیچے وادی میں گاؤں کے لوگوں کو خطرے کے سگنل بھیجنا شروع کیا، سگنل بھیجنے کے لیے اُن کے پاس ایک ٹارچ تھی، اس کے علاوہ وہ تیز آواز میں چیخ بھی رہےتھے۔ اس علاقے میں کسی خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے یہ ایک روایتی طریقہ چلا آرہا تھا۔ جس کے استعمال سے احمد دین نے سات ہزار انسانوں کی جانیں بچالیں۔ لیکن وہ اپنے گھروالوں کو نہیں بچا سکے، اُن کا سب کچھ ختم ہوگیا، اُن کا دو برس کا بیٹا، چار برس کی بیٹی، اُن کا گھر، دو درجن بکریوں پر مشتمل ریوڑ، جو اُن کے روزگار کا واحد ذریعہ تھا، سب کچھ ختم ہوگیا۔ صرف وہ اور اُن کی بیوی بمشکل جان بچا پائے، اگرچہ اُن کی بیوی اس ناگہانی مصیبت میں بُری طرح زخمی ہوگئی تھیں، لیکن معجزانہ طور پر اُن کی جان بچ گئی۔

کوہ ہندوکش میں واقع چترال صوبہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ سطح سمندر سے تقریباً ایک ہزار آٹھ سو ستانوے میٹر بلند اس پُر فضا اور خوبصورت وادی میں آٹھ چھوٹی بڑی بستیاں ہیں۔

اس غیر متوقع اور شدید سیلاب سے چترال میں جانی نقصان تو بہت کم ہوا، لیکن لوگوں کی بڑی تعداد اپنے گھروں سے محروم ہوگئی۔ انفرا اسٹرکچر کی تباہی بہت زیادہ تھی۔ پہاڑی دریاؤں، ندیوں اور نالوں پر بنے ہوئے رسی کے پل جو پیدل چلنے والوں کو ندی پار کرنے میں مدد دیتے ہیں، باقی نہ رہے۔ چھوٹے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، آبپاشی کے ذرائع، پینے کے پانی کے منصوبے اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں کو جزوی نقصان پہنچا، لیکن گاؤں والوں کے لیے سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ سیکڑوں ایکڑ پر پہلی تیار فصلیں اور باغات میں  پھلوں سے لدے درخت اچانک آنے والے شدید سیلاب سے بُری طرح متاثر ہوئے۔

چترال کے اس سیلاب کی وجوہات اور اس کے عوامل پر ماہرین غور کررہے ہیں۔پاکستان میں گلوف پروجیکٹ کے مینیجر حامد میر کے مطابق یہ یقیناً ایک برفانی جھیل کا دھماکہ تھا، جس کا سبب گرمی کی شدید لہر تھی۔ واضح رہے کہ گلوف Glof سے مراد گلیشیائی جھیلوں میں شگاف پڑنے یا اس کے چھلکنے کی صورت میں آنے والے سیلاب ہیں۔

Flash floods wash away livelihoods in Chitral 670
چترال میں حالیہ سیلاب سے لوگوں کا گھر اور مال و اسباب سب کچھ تباہ ہوگیا۔

یہ خطہ جس کی ہم بات کررہے ہیں، پانچ سو بیالیس گلیشیئرز کی معلوم تعداد کے ساتھ برفانی جھیلوں کے ایسے دھماکوں اور سیلاب کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ جھیل میں دھماکہ جولائی کے آخری دو ہفتوں کے دوران درجہ حرارت میں اضافے کے باعث ہوا۔  انہوں نے کہا کہ ”اگر آپ چترال کے پچھلے تین سالوں کے دوران درجہ حرارت کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ دو سے تین ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ جولائی کے آخری دو ہفتوں کے دوران جب درجۂ حرارت میں اضافہ ہوا تو اس دوران صرف چار ملی میٹر بارش ہوئی تھی، جو ظاہر ہے کہ اس شدید سیلاب کا سبب نہیں بن سکتی تھی۔“

انہوں نے بتایا کہ ”میں نے ان پہاڑی علاقوں کا بہت زیادہ سفر کیا ہے اور بذاتِ خود دو درجن سے زائد برفانی جھیلیں دیکھی ہیں، مجھے یقین ہیں کہ ایسی کئی جھیلیں ان گلییشئر کے اندر بھی ہوں گی، جو نظروں سے اوجھل ہیں، لیکن درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں یہ جھیلیں پھیل سکتی ہیں اور گلیشئر میں شگاف ڈال سکتی ہیں، یوں سیلابی ریلا باہر آسکتا ہے۔ پچھلے بارہ سالوں کے دوران یہ علاقہ آٹھ سے زائد برفانی جھیلوں میں شگاف پڑنے سے سیلاب کی زد میں آچکا ہے۔“

سابق انسپکٹر جنرل محکمہ جنگلات بشیر احمد وانی جنہوں حال ہی میں اس علاقے کے حیاتیاتی تنوع پر سیلاب کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ایک سروے کیا تھا، وہ اگرچہ برفانی جھیل کے دھماکوں کے حوالے سے غیریقینی کا شکار ہیں، لیکن وہ حامد میر کی اس بات سے ضرور اتفاق کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں اس علاقے میں سیلاب کی اہم ذمہ دار ہیں۔

بشیر احمد وانی کے مطابق ماضی میں ان بلند و بالا پہاڑی علاقوں میں مون سون کے اثرات اتنے زیادہ نہیں دیکھے گئے تھے، لیکن اب یہ اثرات چترال جیسے بلند و بالا پہاڑی علاقوں میں نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے چترال کے محکمۂ موسمیات کے ماہرین سے ملاقات کی ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ علاقے کی فضا میں اس دوران نمی میں اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔

Flash floods wash away livelihoods in Chitral2 670
گوگل میپ پر چترال کا ایک فضائی منظر۔

لیکن حامد میر نے بارش کو سیلاب کا سبب ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ چترال ایک خشک اور معتدل آب وہوا کا حامل خطہ ہے، اور یہاں شدید بارشیں عموماً موسمِ سرما کے دوران ہی ہوتی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ کوہِ ہندوکش کا یہ مغربی علاقہ جولائی میں زلزلے کے مختلف شدت کے جھٹکوں کا سامنا بھی کرچکا ہے۔

بشیر احمد وانی کہتے ہیں کہ چترال جیسے حساس ماحولیاتی نظام میں جغرافیائی فعالیت گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کا سبب بن سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ پہاڑ نسبتاً نوخیز ہیں۔ مختلف جیولوجیکل سرگرمیاں مثلاً پہاڑوں کے اندر پگھلے ہوئے مادے کے سبب گلیشئر میں پیدا ہونے والا ارتعاش شگاف کا باعث بن سکتا ہے، اور اندرونی جھیلوں کا پانی ریلے کی صورت میں نشیبی وادیوں میں تباہی پھیلا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ برفانی ماحولیاتی نظام بہت زیادہ حساس ہوتا ہے۔ اس نظام میں غیر معمولی تبدیلیاں برفانی دودوں کے گرنے یا لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بھی پیدا کرسکتی ہیں۔

بشیر احمد وانی نے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی میں اضافہ جنگلات کی کٹائی، سبزے کا خاتمہ اور واگزار کی گئی زمین پر ناقص اور اندھا دھند تعمیرات کے سبب بھی ظاہر ہوا ہے۔ہمالیہ کے مشرق میں واقع ہندوستانی ریاست اتراکھنڈ بھی جون میں اسی قسم کی تباہی سے دوچار ہوئی تھی۔ؕ

گلوف پروجیکٹ کے مینیجر حامد میر نے کہا کہ ترقیاتی کاموں کے دوران شاید ہی کبھی ماحول کے بارے میں سوچا جاتا ہوگا، لیکن شاید اس سیلاب سے ہم سیکھ سکیں کہ آئندہ ترقیاتی کاموں کو وقتی فوائد کے بجائے ہر پہلو پر غور کرکے اس طرح انجام دیا جائے کہ ان کی وجہ سے اس علاقے کا حساس ماحولیاتی نظام متاثر نہ ہو۔

کوہِ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں گلگت بلتستان کے علاقے میں پانچ ہزار دو سو اٹھارہ چھوٹے بڑے گلیشیئر ہیں، جبکہ دوہزار چار سو بیس برفانی جھیلوں میں سے باون کو پہاڑی علاقوں میں کام کرنے والےپہاڑی علاقوں میں مربوط بین الاقوامی ترقیاتی مرکز (آئی سی آئی ایم او ڈی) کی جانب سے ممکنہ طور پر خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے ارباب اقتدار نے اب تک یہاں سیلاب کی وارننگ دینے والا کوئی سسٹم نصب نہیں کیا ہے۔

حکومتی گلوف پروجیکٹ  کے مینیجر حامد میر اس حوالے سے کہتے ہیں کہ حل کے تلاش سے پہلے ضروری ہے کہ اس علاقے میں گلیشیئرز کی معلومات اکھٹا کرنے کے لیے ایک تفصیلی سروے کیا جائے اور اس علاقے کی جیولوجیکل ساخت کو سمجھا جائے تاکہ بہتر اور کارآمد فیصلہ کیا جاسکے۔ معلومات کے حصول کے لیے سائنسی شواہد کے ساتھ ساتھ مقامی آبادیوں کی روایتی معلومات سے بھی استفادہ کرنا ضروری ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے نسل در نسل یہاں آباد ہیں، اور اس خطے کی معلومات ان میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں، یہ آج بھی ہمارے لیے نہایت قیمتی ہیں۔

اس حوالے سے آئی سی آئی ڈی ایم او ڈی کے پاکستانی شاخ کی ریسرچ آفیسر کنول وقار کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات کے پاس اس خطے کی تمام جغرافیائی معلومات موجود ہیں، اور اس قسم کے کسی سروے کی کوئی ضرورت بظاہر محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ تبدیل ہوتے موسم کے حوالے سے کام کرنا ازحد ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں اقوم متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور آئی سی آئی ایم او ڈی کے تعاون سے پاکستان میٹرولوجی ڈیپارٹمنٹ نے گلگت کی بگروٹ وادی میں ابتدائی وارننگ سسٹم کی تنصیب کی ہے۔

حامد میر نےکہا کہ اس سے پہلے کہ ہم حل تلاش کرپائیں، یہ ضروری ہے کہ میٹرولوجی اور موسم کے مشاہدے پر سرمایہ کاری کی جائے۔ ہمیں ضلع چترال میں کم از کم چار ایسے موسمیاتی اسٹیشن قائم کرنے کی ضرورت ہے جو چترال کے بالائی علاقوں کے موسمیاتی اعدادوشمار کو اکھٹا کرسکیں، کیوں کہ یہاں ہر چند ہزار فٹ کے بعد موسم تبدیل ہوجاتا ہے۔ ان کاموں کے لیے کسی مہنگے منصوبے یا انتہائی جدید آلات کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی، بلکہ بارش کی پیمائش کرنے والے آلات، بیرو میٹر، اور اینا میٹر مقامی طور پر مل جائیں گے، ہمیں صرف تھرمامیٹر بیرون ملک سے درآمد کرنے پڑیں گے۔

چترال کے غیر متوقع اور شدید سیلاب کے بعد گلیشیائی جھیلوں کے حوالے سے بحث جاری ہے، یہ ایک ایسا موضوع ہے، جو پاکستان میں زیادہ معروف نہیں ہے، لہٰذا اس بحث کو بدلتے موسموں کے تناظر میں اہم سمجھنا چاہئے کہ اس سے معاشرے کے اجتماعی شعور میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

بشکریہ: تھرڈ پول

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں