نامور دوا ساز کمپنی کی کووڈ ویکسین ’ایسٹرا زینیکا‘ بلڈکلاٹ (خون کا جمنا) اور پلیٹلیٹس کی کم تعداد جیسے مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق دوا ساز کمپنی کو ایک مقدمے کا سامنا ہے جہاں لوگوں کا ایک گروپ دعویٰ ہے کہ اس کی ویکسین، جو آکسفورڈ یونیورسٹی کے ساتھ بنائی گئی تھی، کئی واقعات میں موت اور سنگین انجری کا باعث بنی ہے۔

کمپنی نے عدالتی دستاویزات میں تسلیم کیا کہ ’ایسٹرا زینیکا‘ ویکسین غیر معمولی حالات میں ٹی ٹی ایس یعنی تھرومبوسس وِد تھرومبوسائٹوپینیا سنڈروم کا باعث بن سکتی ہے، تاہم اس نایاب حالت کی صحیح وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہے۔

کُوِی شیلڈ کو برطانوی-سویڈش کمپنی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے درمیان شراکت داری کے ذریعے بنایا گیا تھا اور اسے سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے تیار کیا تھا اور اسے دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں وسیع پیمانے پر استعمال کی گئی ہے۔

دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق وبائی مرض کے دوران کی گئی کچھ مطالعات سے پتا چلا کہ یہ ویکسین نوول کورونا وائرس کے خلاف حفاظت میں 60 سے 80 فیصد تک موثر ہے۔

البتہ شکایت کرنے والوں میں سے ایک شخص نے شکایت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ویکسین کے استعمال سے ان کے دماغ میں کا خون جمنا شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں وہ مستقبل طور پر دماغی انجری کا شکار ہوگئے۔

اگرچہ کمپنی نے ان دعووں سے اختلاف کیا لیکن عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے بعد انہوں نے پہلی بار اعتراف کیا کہ ویکسین انسانوں میں بلڈ کلاٹ (خون کا جمنا) اور پلیٹلیٹس کی تعداد کم کرنے جیسے مضر اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔

سائنسدانوں نے ابتدائی طور پر مارچ 2021 میں ویکسین اور نایاب حالت کے درمیان تعلق کو دریافت کیا تھا جسے امیون تھرومبوسائٹوپینیا اور تھرومبوسس (وی آئی ٹی ٹی) کہا جاتا ہے۔

مارچ 2021 میں ایسٹرا زینیکا کے استعمال کے نتیجے میں خون جمنے کے واقعات کے بعد ڈنمارک، ناروے، آئس لینڈ اور اٹلی نے ویکسین کا استعمال عارضی طور پر روک دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں