اے ایف پی فائل فوٹو --.
اے ایف پی فائل فوٹو --.

گجرات: ایک طرف جہاں پنجاب حکومت نے اسکولوں میں داخلہ مہم کا آغاز کر دیا ہے وہیں دوسری جانب پرائمری سطح پر لڑکیوں اور لڑکیوں کے اسکولوں کو آپس میں ضم کر دینے کے حکومتی فیصلے کے خلاف ضلع کے چار اہم گاؤں میں والدین نے اپنی بچیوں کو اسکول جانے سے روک دیا ہے۔

گاؤں کی پنچایت کی جانب سے پرائمری سطح پر کو ایجوکیشن تعلیم کے خلاف متفقہ فیصلے کے بعد، چوتھی اور پانچویں جماعت کی طالبات کو ان کے والدین نے اسکول جانے سے منع کر دیا ہے۔

مچھی وال چوکرخورد یونین کونسل کے گاؤں میں حکومت نے لڑکوں اور لڑکیوں کے پرائمری اسکولوں کو آپس میں ضم کر دیا ہے۔ نرسری سے تیسری جماعت جماعت کے طلبہ کو لڑکیوں کے اسکول والی بلڈنگ میں بھیجا جا رہا ہے جبکہ چوتھی اور پانچویں جماعت کی طالبات کو لڑکوں کے اسکول جانے کی ہدایات ملی ہیں۔

اسکولوں کے آپس میں انضمام کی خبروں کے بعد، گاؤں کے بڑوں نے پنچایت کا اجلاس بلایا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ چوتھی اور پانچویں جماعت میں پڑھنے والی بچیوں کے والدین کو ایجوکیشن اسکولوں میں اپنی بچیوں کو نہیں بھیجیں گے۔ فیصلے کا اعلان، گاؤں کی مسجد سے کیا گیا اور پچھلے دو ہفتوں سے تمام والدین فیصلے کے مطابق اپنی بچیوں کو اسکول نہیں بھیج رہے۔

گاؤں کے ایک رہائشی، جن کی بیٹی چوتھی جماعت میں پڑھتی ہے، نے ڈان کو بتایا کہ کوئی لڑکی اسکول نہیں جا رہی اور معاملے کی رپورٹ ضلعی انتظامیہ کو کر دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گاؤں کی آبادی کی اکثریت خاصی مذہبی ہے اور وہ جونیئر سطح پر بھی کو ایجوکیشن کے لیے تیار نہیں ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ گاؤں کی آبادی کے خدشات سے محکمہ تعلیم کے متعلقہ حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے اور حکومت جب تک اپنا فیصلہ واپس نہیں لے لیتی، والدین اپنی بچیوں کو اسکول نہیں بھیجیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ گاؤں کے لوگ لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں تاہم کو ایجوکیشن انہیں کسی بھی طور پر قبول نہیں۔

ایسے ہی حالات کی ضلعی انتظامیہ کو ٹنڈا، ککرالی اور سرائے عالمگیر کے گاؤں سے رپورٹ ملی ہے جس میں چوتھی اور پانچویں جماعت کی بچیوں کے والدین نے اپنی بچیوں کو اسکول جانے سے روک دیا ہے۔

گجرات کے ضلعی رابطہ افسر، آصف بلال نے ان رپورٹس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ صوبے کی متعلقہ اتھارٹی کو اس حوالے سے ایک خط کے ذریعے آگاہ کر دیا گیا ہے اور اس حوالے سے جواب کا انتظار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ضلعی انتظامیہ پرانے سسٹم کے تحت لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ اسکولوں کا انتظام کرتی ہے تو یہ حکومتی پالیسی کی خلاف ورزی شمار ہو گا۔

انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے قبائلی علاقے ڈیرہ غازی خان اور راجن پر میں بھی اسکولوں کا انضمام کیا گیا ہے لہٰذا لوگوں کو اس فیصلے کے حوالے سے حکومت کی مجبوریوں کو سمجھنا چاہئے۔

جب ان کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکنے پر حکومت کی جاری مہم پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ضلع میں مذکورہ مہم کامیابی سے جاری ہے اور مقرر کردہ ہدف بھی حاصل ہو رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں