25-10-13-Aafia case not open to discussion US 670
ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کیے جانے والے ایک احتجاجی مظاہرے کا منظر۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

واشنگٹن: امریکا کے سینیئر حکام نے جمعرات کو کہا کہ امریکا کی ڈرون پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، جبکہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے یہ معاملہ امریکی دارالحکومت میں  اپنے چار روزہ دورے کے دوران نجی اور عوامی ملاقاتوں میں اُٹھایا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ان میں سے ایک میٹنگ کے دوران ایک پاکستانی نژاد امریکی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ذکر بھی کیا جو افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام کے تحت امریکا میں قید ہیں۔

امریکی حکام میں سے ایک نے کہا کہ ”لیکن اس معاملے پر کوئی بحث نہیں ہوئی، جیسے اس معاملے کو بات چیت کے لیے اُٹھایا ہی نہیں گیا۔“

حکام نے کہا کہ امریکا سمجھتا ہے کہ پاکستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور امریکا کو اس بات چیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

واشنگٹن میں پاکستانی صحافیوں کے لیے ایک خصوصی بریفنگ کے دوران حکام نے پاکستانی وزیراعظم کے اس دورے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس دوران وزیراعظم غیر معمولی طور پر مصروف رہے۔

اس دوران امریکی رہنماؤں، فوجی حکام، ارکان پارلیمنٹ اور تھنک ٹینک کے ماہرین کے ساتھ وزیراعظم کی ملاقاتوں کا ایک سلسلہ جاری رہا، بدھ کو پاکستان روانگی  سے قبل انہوں نے امریکی صدر بارک اوبامہ سے بھی ملاقات کی، جو دو گھنٹے تک جاری رہی۔

امریکی حکام کا کہنا تھا کہ وزیراعظم واشنگٹن میں اپنی بات چیت کے دوران مخلص اور گرمجوش دکھائی دیے، اور امریکی انتظامیہ مستقبل میں اس طرز کے مذاکرات کو جاری رکھنا چاہے گی۔

امریکی حکام نے بتایا کہ وزیراعظم نے واشنگٹن میں اپنی نجی اور عوامی ملاقاتوں میں درون کے معاملے کو اُٹھایا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ امریکا اب بھی اس پالیسی کو جاری رکھنے پر قائم ہے، جس کا اعلان صدر اوبامہ نے اس سال مئی میں کیا تھا۔

مئی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، واشنگٹن میں کیے گئے اپنے خطاب میں صدر اوبامہ نے ڈرون کو ایک انتہائی مجبوری کے تحت اپنائی گئی بُرائی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ یہ حملے جاری رہیں گے۔

مذکورہ حکام میں سے ایک نے کہا کہ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے جارہا ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں ہماری حمایت کی جائے۔امریکی حکام نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس معاملے پر ایک سیاسی اتفاق رائے موجود ہے۔ ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا، جب طالبان آئین اور ریاستی قوانین کو بھی تسلیم کرلیں گے۔

حکام کے مطابق وزیراعظم نے افغانستان کی سرزمین کے استعمال کے ذریعے بلوچستان اورخیبر پختونخوا کے اندر مشکلات میں اضافہ کرنے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا، اور کچھ میٹنگ کے دوران انہوں نے انڈیا کا نام لیتے ہوئے کہا کہ وہ ان ممالک میں سے ایک ہے جو افغانستان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

دونوں رہنماؤں نے پاکستان سے اور اس کے اندر سرحد پار دہشت گردی کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا، اور نواز شریف نے اوبامہ سے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایسی تمام سرگرمیوں کو لازماً بند کیا جائے اور کسی بھی ملک کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہئیے کہ وہ اپنی سرحدوں کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے لیے مشکلات کھڑی کرے۔

حکام میں سے ایک نے کہا کہ ”مجھے یقین نہیں کہ عافیہ صدیقی کا معاملہ اٹھایا گیا تھا۔ البتہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ ضرور کئی میٹنگ میں اُٹھایا گیا تھا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ صدر اوبامہ، امریکی حکام اور ارکان پارلیمنٹ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرنے کے لیے  نواز شریف پر زور دیا ۔

حکام کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی واشنگٹن میں مختلف میٹنگوں کے دوران پاکستان کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات مختلف زاویوں کے ساتھ زیر بحث رہے اور امریکا نے اپنے مؤقف کا اعادہ کیا کہ دونوں ممالک کو اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوششوں کو جاری رکھنا چاہئیے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو ان مذاکرات میں لائن آف کنٹرول، تنازعہ کشمیر اور تمام اہم ہندوستان و پاکستان کے تعلقات کے تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ کرنا چاہئیے، وزیراعظم کی خواہش کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی حکام نے کہا کہ وہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

نواز شریف نے امریکیوں کو مطلع کیا کہ گزشتہ ماہ نیویارک میں ہندوستانی وزیراعظم منموہن سنگھ کے ساتھ ان کی ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے اپنے ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کو یہ ذمہ داری دی تھی کہ وہ لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ تناؤ کو کم کرنے کے لیے بات چیت کریں۔

لیکن نواز شریف نے امریکی حکام سے یہ بھی کہا کہ اس طرح کا طریقہ کار ہمیشہ بہت زیادہ مؤثر نہیں رہا ہے، اور اسی لیے وہ زور دے رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کو مل کر کام کرنا چاہیئے تاکہ تناؤ دور کرنے میں مدد مل سکے۔

جب یہ سوال کیا گیا کہ اس پر امریکی ردّعمل کیا تھا تو امریکی حکام میں سے ایک نے کہا کہ ہم کشیدگی کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنا اثرو رسوخ کا استعمال کرتے رہیں گے۔

حکام کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی توانائی کی ضرورت پر باقاعدہ بات چیت ہوئی، لیکن پاکستان کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا توانائی کے روایتی اور غیرروایتی ذرایع مثلاً ہائیڈرو پاور، گیس وغیر کو بہتر بنانے میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں