تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز --.

بہت پرانی بات ہے، غالباً 780ء سے 1044ء کے درمیانی عرصے کاذکر  ہے۔ یہ عرصہ یورپ کی قدیم تاریخ میں ‘‘ وائی کنگ’’ دور کہلاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ بھر میں چھوٹا بڑا کوئی بھی قلعہ وائی کنگ جنگ جووں سے محفوظ نہ تھا۔

ایسی ہی ایک رات تھی جب دبے پاؤں آگے بڑھتے ہوئے ایک برہنہ پا وائی کنگ کا پاؤں کانٹوں سے بھرپور ایک جنگلی پھول پر پڑا جس نے اسے بے اختیار چیخنے پر مجبور کر دیا، یوں پہرے دار چوکنے ہوگئے اور ان کا قلعہ ایک شب خون سے بچ گیا۔

 سکاٹ لینڈ کے بادشاہ نے اس پھول کو سراہنے کے لئے ایک شاہی اعزاز کا اجرأ کیا جو ‘‘آڈر آف دی تھیسل’’ کہلاتا ہے۔ آج بھی سکاٹ لینڈ کا قومی پھول ایک تھیسل ہی ہے۔

تھیسل جنگلی پھولوں یا جڑی بوٹیوں کی ایسی قسم ہوتی ہے جو سراسر کانٹوں سے بھر پور ہوتی ہے۔ ہم پنجاب میں انہیں ‘‘کنڈیاری’’ کہتے ہیں ان میں کئی رنگوں کے پھول ہوتے ہیں، سرخ، پیلے، نارنجی اور کاسنی اب بھی ہمارے دیہاتی منظر نامے کا ایک لازمی حصہ ہیں۔

ان کی ایک سماجی و معاشی حیثیت بھی تھی اور ادبی حوالہ بھی، وہ بھی تو ایک کنڈیاری ہی تھی جس پر بلھے شاہ نے اپنی بے مثال کافی  ‘‘ نی میں کوسمبڑا چن چن ہاری ’’ لکھی۔ وہ کافی بھی کیا ہے ، چیخ ہے ۔ شاید بلھے شاہ بھی ننگے پاؤں تھا یا پھر اس کے کانٹے اتنےتیز اور  نوکیلے تھے کی روح تک کو زخمی کر ڈالا، کافی کے مضامین پر نظر کریں تو لگتا ہے کو سمبہ تو ایک استعارہ ہے ، میٹافر ہےاور بیان تو معاشی ناہمواریوں اور اس استحصال کاہے جو ہر دور میں صورت بدل بدل کر معاشرے کو بد صورت کرنےکے جتن کرتا رہتا ہے۔

 لیجئے میں بھی کیا کہانی لے بیٹھا اور اس  سب میں آپ سے اس عجوبہ روزگار کا مناسب تعارف بھی نہ کراسکا، چلئےچھوڑیئے سب باتوں کو اور ملئے‘‘ کوسمبے’’ سے جو ہے تو کانٹوں سے بھرا  ایک جنگلی پھول جو پودوں کی درجہ بندی میں ‘‘جڑی بوٹی’’ کے خانے میں ہے پر کبھی یہ اپنی رومان پروری کے لئے جانا جاتا تھا۔

جب جون جولائی کی دھوپ اپنی چھب دکھانے لگتی اور خودرو جنگلی پودے اور جھاڑیاں اونچی نیچی بنجر زمینوں میں چاروں طرف پھیلی ہوتی، کچھ پیلی، نارنجی اور سرخ  رنگوں کی باریک باریک پتیوں والے کانٹے دار خودرو پھول دھرتی کے وسیع منظر میں خود کو منفرد ظاہر کرنے کی کامیاب کوششوں میں مصروف نظر آتے.

 ایسا تو کہیں کہیں اب بھی ہوتا ہے پر گزرے زمانوں میں رنگ برنگی چنریوں کو لہراتی، کوسمبے کے تیز نوکیلے کانٹوں کی دست درازیوں سے بے پرواہ ان پھولوں کی پتیاں چنتی دوشیزائیں بھی اسی منظر کا لازمی حصہ تھیں جنہیں صنعتی انقلاب کے باعث ہونے والے معاشی بدلاؤ ( جسے ہم ‘‘ ترقی’’ بھی کہہ دہتے ہیں) نے غائب کردیا۔

کانٹوں سے بھر پور اس پودے سے پتیاں چننا بھی ایک دکھ بھرا کام ہے جو چننے والے کے ہاتھوں کو خون کے آنسو رولا دیتا ہے۔ کوسمبہ بھی ایک عجیب پودا ہے اوپر سے جتنا دیدہ زیب اور بھلا لگتا ہے نیچے سے اتنا ہی کرخت اور بدنما، اور پھر اس کے کانٹے، ان سے تو توبہ ہی بھلی۔ کانٹے تو گلاب پر بھی ہوتے ہیں پر ان کی کوئی حد تو ہو۔

جی ہاں یہی وہ کوسمبہ ہے جس پر صدیوں پنجاب کی مٹیاریں فدا رہیں اور اس کی پتیاں چننے کا کٹھن کام اپنے ذمے لئے رکھا۔ اور کرتیں بھی کیوں نہ۔ ان کی اپنی شادی کا جوڑا رنگنے کے لئے ضرورت بھی تو انہیں کی سرخ پتیوں کی ہوتی تھی۔

اپنے ارمانوں کا جوڑا رنگنے کے لئے خود ہی پھول کی پتیاں چننا بھی کس قدر رومانی کام ہے، کسی کے خیالوں میں گم ہو کر ایسے کانٹوں بھرے پودے سے کھیلنا، زخم لگنا تو لازم ہے۔

کوسمبے کا کوئی حصہ بھی کانٹوں سے خالی نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کے پتوں پر بھی باریک باریک  کانٹے ہوتے ہیں۔کوسمبہ کی آماجگاہ بہت وسیع ہے، اختصار کے لئے ہم اسے میڈیٹرینین بیسن کہہ سکتے ہیں یعنی تین براعظموں پر محیط ، ایشیا ، افریقہ ،جنوبی امریکہ کے علاوہ شمالی امریکہ کے گرم اور خشک علاقے اور آسٹریلیا شامل ہیں۔

کوسمبہ مختلف حالات اور موسموں کے تغیر کے باعث ایک فٹ سے پانچ فٹ تک بلند ہوسکتا ہے، تنا سفیدی مائل سبز، موٹا اور سیدھا، اوپر کی جانب کئی شاخوں میں بٹ جاتا ہے اور سب سے اوپر پھول، پھول کی شکل کچھ کچھ صراحی سے مشابہ، نیچے سے پھولا ہوا، گول اوردھانے سے تنگ، اس تنگ دھن سے پتیاں ایسے نمودار ہوتی ہیں گویا پھول گلدان میں سجے ہوں۔

اس وضع قطع کے پھولوں کو ہی تھیسل یا کنڈیاری کہتے ہیں۔پتے چوڑے اور بیضوی ہوتے ہیں رنگ گہرا سبز جو وقت کے ساتھ مزید گہرا ہوتا ہے۔پتوں پر رگیں ہلکے سبز رنگ کی اور نمایاں ہوتی ہیں۔ کوسمبے کے سب ہی حصے اپنی ضرورت کا پانی محفوظ رکھنے صلاحیت رکھتے ہیں۔

ہمارے کوسمبے کو انگریز سیف فلاور کہتے ہیں اور نباتات کی کتابوں میں اسے‘‘ کارتھامس ٹنک ٹوریس’’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ایک اور انفرادیت کوسمبے کی یہ بھی ہے کہ سب ہی پودوں کے نباتاتی نام لاطینی زبان سے ہوتے ہیں مگر اس کے نام کا ماخذ لاطینی کی بجائے عربی زبان کا لفظ ‘‘قرطم’’ ہےجو رنگ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس کے قدیم اور تاریخی استعمال کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

اس سے لفظ کارتھامائین بھی نکلا ہے جو قدرتی ذرائع سے حاصل شدہ سرخ رنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں کوسمبہ الاصفر کہا جاتا ہے جو اصفر سے بنا اور پیلے یا زرد کو کہا جاتا ہے، ہسپانوی زبان میں‘‘ الازور’’اور اٹلی کے باسی ‘‘اصفی اور’’، ترک زبان میں‘‘ حاصبر’’اور روس اور مغربی یورپ میں ‘‘سیف لور’’ غرض اس کی کاشت کے سبھی علاقوں میں اس کے نام کا ماخذ اس کا عربی نام ہی ہے۔ اس کے نباتاتی نام کا دوسرا حصہ انگلش زبان سےہے جس کے معنی  رنگساز کے ہیں۔یعنی جو رنگ دے۔

کچھ محقیقین کی نظر میں اس کا آبائی وطن دریائے فرات کی وادی ہے جو ترکی سے نکلتا ہے اور شام کے راستے عراق میں داخل ہوتا ہے اور شط العرب کے مقام پر خلیج فارس میں جا گرتا ہے۔ اس طرح ان چار ممالک کو اپنی ستائیس سو کلو میٹر طویل ڈور سے باندھے رکھتا ہے۔اس کا یہ حوالہ تاریخی بھی ہےاور دلون کو چھو لینے والا بھی، دریائے فرات، کربلا ، سرخ رنگ، بنا پانی کے سرخرو ہونا وغیرہ۔

رنگوں کی قوس قزاح بہت وسیع ہے اور اس میں کوسمبے کو قدرتی سرخ نمبرچھبیس دیا گیا ہےجو نہ صرف کپڑوں کی رنگائی بلکہ کھانوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کوسمبہ پودوں میں ایک لاڈلے کا درجہ بھی رکھتا ہے اور اس کے ناموں کے علاوہ اس کی عرفیت بھی ہیں ۔ اپنے رنگ کی زعفران سے مشابہت کی بنا پراسے زعفران میں  ملاوٹ کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی ایک عرفیت بناوٹی زعفران بھی ہے اور انگریز تو اسے باسٹرڈ یا ناجائز زعفران بھی کہتے ہیں۔

کوسمبہ نے اپنی کاشت کے سب علاقوں اور تہذیبوں کو متاثر کیا ہے،پنجاب سے مصر تک ہر ملک اور تہذیب میں اس کے حسن اور حشر سامانیوں کی کوئی نہ کوئی داستان موجود ہے، فرائناں مصر کے ایک ممتازفرعون توت آمن آنخ کے تابوت سے کوسمبے کےسوکھے پھولوں کی لڑیاں برامد ہوئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عظیم الشان بادشاہ کا دربار بھی اس کی رنگینیوں سے خالی نہ تھا اور اس نے کوسمبہ کا ساتھ اپنے ابدی سفر میں بھی لازمی سمجھا۔اسی طرح اور بھی فرائناں مصر کے اہراموں سے ملنے والے کپڑوں میں بھی اسی کی رنگبازی دیکھائی دی۔

پنجاب کی ثقافت کا کوسمبے سے رشتہ بہت خصوصی، گہرا اور رومانی ہے، نوجوان لڑکیاں جنگل سے اس کی پتیاں چنتے چنتے اپنےنازک  ہاتھ زخمی کرلیا کرتیں تھیں کہ اپنی شادی کے جوڑے کو سرخ رنگ دینے کے لئے اس کی پتوں سے رنگ بناسکیں، وہ بھی کیا منظر ہوتا ہوگا جب کسی کے خیالوں میں گم، آپ ہی آپ بے بات مسکراتی لڑکیاں نوکیلے کانٹوں سے اپنا دامن بچاتی مگر کانٹوں سے بھرپور پودے سے الجھتی ہونگی کہ کسی بھی طور زیادہ سے زیادہ پتیاں جمع کر سکیں کہ ان کے ارمانوں کے جوڑے پر رنگ چوکھا آئے.

پھر یوں ہوا کہ اس کے رنگ کی روزافزوں مانگ نے اسے ایک تجارتی جنس بنا دیا۔ یوں گوریوں کو اس کی چنائی روزی روٹی کے لئے کرنی پڑی ۔ اس شے کی بھی قیمت لگا دی گئی جس کا تعلق اپنے پیا سے ملنے کے لئے کئے جانے والے بناؤ سنگھار سے تھا۔ یہ وہ نوکیلے کانٹے تھےجنہوں نے برہنہ پا بلھے شاہ کو چیخنے پر مجبور کیا ،

‘‘نی میں کوسمبڑا چن چن ہاری’’

گوریوں نے اب اس کے پھول چننا چھوڑ دیئے ہیں ، اس کی سب سے زیادہ کاشت امریکہ اور بھارت میں کی جارہی ہے اور بھارت میں ایک ایسی مشین بنائی گئی ہے جو ہاتھ زخمی کئے بنا ہی محض ہوا کے زور پر بہت تیزی سے اس کی پتیاں کھینچ لیتی ہے۔

دور حاضر میں انسان کی روز بروز بڑھتی ہوئی ضرویات نے موجود قدرتی ذرائع کے بہترین اور ہر ممکن  استعمال کی اہمیت کو اجاگر کیا اور تحقیق کی نئی راہیں کھولی، ویرانوں اور بنجر زمینوں کا باسی یہ مسکین بھی تحقیق کاروں سے نظر نہ بچا سکا۔ اس کی پتیوں کے علاوہ اس کے ہر حصے پر ہوئی تحقیق نے کئی اور رازوں سے پردہ اٹھایا اور کوسمبے میں چھپے بے بہا خزانوں کو بے نقاب کیا۔

کوسمبہ کا تنا اوپر سے شاخوں میں تقسیم ہوتاہے اور ایک شاخ پر ایک سے پانچ پھول ہوتے ہیں  جن سے پہلے پتیاں اور پھر بیج حاصل کئے جاتے ہیں۔ آج جب کیمیائی  سرخ رنگ بے حد ارازاں ہے کوسمبہ اپنے بیجوں اور ان سے حاصل ہونے والے اعلی درجے کے تیل کے لئے محبوب و مطلوب ہے۔

موسم کے گرم اور خشک ہونے پر جب پیتاں یا تو چن لی جاتی ہیں یا پھر گر جاتی ہیں تو اس کے صراحی دار حصہ سے جو دراصل اس کا بیج گھر ہوتا ہے، بیج حاصل کئے جاتے ہیں ایک پھول میں پندرہ سے بیس بیج ہوتے ہیں۔

کوسمبہ قحط اور پانی کی کمیابی کو برداشت کرنے کی بے مثال صلاحیت کا حامل ہوتا ہے اور سخت سے سخت حالات، نمکیات، زمین کے بنجر پن اور کسی دیکھ بھال کے بنا ہی اپنی زندگی کا سفربغیر کسی شکوہ کے پورا کرتا ہےاور جاتے جاتے ایک ایسا تیل دے جاتا ہے جو صرف کھانا پکانے کے لئے ہی انتہائی صحت بخش تصور نہین کیاجاتا، صنعتی لحاظ سے بھی لاجواب اور بیش قیمت مانا جاتا ہے۔ اس کی مرکزی جڑ آٹھ سے دس فٹ تک گہرائی میں جاتی ہے جو اس قد کاٹھ کی جڑی بوٹیوں کے لئے بہت زیادہ سمجھی جاتی ہے۔

اپنی کوئی مخصوص بو یا ذائقہ نہ ہونے کے باعث جن کھانوں میں استعمال کیا جائے ان کی اپنی لذت اور خوشبو کو برقرار رکھتا ہے، سفید رنگ کی تیاری میں جتنے بھی تیل استعمال کئے جاتے ہیں وہ ایک ہلکا سا پیلا رنگ ضرور دیتے ہیں لیکن کوسمبے کا تیل یہاں بھی میدان مارتا ہے اور اس سے بنی اشیأ ہمیشہ بیش قیمت ہی شمار ہوتی ہیں۔

اب آیئے اس کی ادویاتی اہمیت اور اب تک کی جانے والی تحقیق پر جو ایسے ایسے انکشافات کر رہی ہے کہ ہر کوئی اس کا دیوانہ ہوا جاتا ہے۔ ہماری مقامی طب میں اس کے استعمال کی کوئی واضح روایت تو نہیں مل سکی سوائے اس کے تیل کے صحت مند خیال کئے جانے کے لیکن جدید سائنس کی روشنی میں اس کی جو اہمیت دیکھائی دی ہے وہ اس کی ٹوپی میں کئی پھندنوں کا اضافہ کرتی ہے۔

سب سے پہلے تو ہم کوسمبہ تیل کی ساخت  کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ موصوف ستتر فیصد ان چکنائیوں پر مشتمل ہیں جنہیں پولی ان سیچوریٹیڈ فیٹی ایسڈز یا ‘‘اومیگا چھ’’ اور بہت ہی نایاب‘‘ اومیگا تین’’  کہا جاتا ہے، تیرہ فیصد مونو ان سیچوریٹیڈ فیٹی ایسڈز اور صرف دس فیصد مضر صحت چکنائی یعنی سیچو ریٹیڈ فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ زیتون کے تیل سے بھی بازی مارتا نظر آتا ہے۔

اپنی ساخت میں اومیگا تین اور اومیگا چھ کی بڑی مقدار کے باعث خون سے مضر صحت چکنائی (ایل ڈی ایل) کو کم کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھا جاتا ہے، یوں بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) اور خون کے رگوں میں جمنے (بلڈ کلوٹنگ) کی اصلاح کرتا ہے۔

کوسمبہ تیل کو بالوں کے جھڑنے اور گنجے پن کو روکنے میں بھی مددگا پایا گیا ہےاس کے علاوہ بھی بہت سے امراض میں اس کا استعمال تجویز کیا جاتا رہا ہے مگر اس کی جدید سائنسی تصدیق نہ ہونے کے باعث ان کا ذکرمناسب خیال نہیں کیا گیا۔

ایک اور قابل ذکر تحقیق جس نے کوسمبے کی اہمیت کو چار چاند لگادیئےوہ ریاست ہائے متحدہ کی اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کی محقق پروفیسرمارتھا بیلوری نے کی۔ ایسی ادھیڑ عمر  خواتین جو مینوپاز کے مرحلے سے گذر رہیں تھیں، موٹاپے اور ذیابیطس کا شکار تھیں جسے ٹائپ ٹو ذیابیطس کہا جاتا ہے، کوسمبہ تیل  کےاستعمال سے نہ صرف ان کی شوگر میں کمی دیکھی گئی بلکہ ان کا وزن بھی قابل ذکر حد تک کم ہوا۔

کوسمبے کا تیل ہی خواتین کی کچھ اور شکایات جو ہارمون کی کمی بیشی سے متعلق تھیں اور خاص طور پر حیض کی بندش جیسی اہم شکایات میں ازالے کے لئے بھی اولین ترجیح مانا جاتا ہے، شاید اسی لئے اسے حاملہ خواتین میں اس کا استعمال  ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

کوسمبہ کی گراں بہا غذائی اور ادویاتی  خوبیوں اور معاشی اہمیت میں اضافے نے اس کی بہتر پیداوار دینے والی اقسام اور کاشت کے منافع بخش طریقہ کار  کے بارے میں تحقیق کی نئی راہیں کھولی اور آج ہر علاقے میں وہاں کے موسم کے مطابق بہتر کارکردگی والی اقسام ان کے کاشتکاروں کے زیراستعمال ہیں۔

پاکستان میں میٹھا اور زراعت کے لئے مناسب پانی جس رفتار سے کم ہو رہا ہے ہمیں ایسی فصلات جو کم پانی میں پیداوار دینے کے ساتھ ساتھ منافع بخش بھی ہوں تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے، کوسمبہ بھی ایسی ہی ایک بھولی بسری فصل ہے جو ہزاروں سال سے ہمارے زرعی سماج کا اہم حصہ رہی ہے ۔ پاکستان میں پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے صحرائی علاقے اس کی کاشت کے لئے موزوں ہیں اور اپنے کاشتکار کو خوشحال کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

کچھ علاقوں میں اس کی کاشت کے بارےمیں سنا بھی گیا ہے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کتنے رقبے پر اس کاشت کی گئی اور پیداوار کیا تھی وغیرہ، زرعی تحقیقاتی ادارے کی ویب سائٹ پر جو اعداوشمار ہیں وہ کم از کم دس بارہ سال پرانے ہیں پھر ان مردہ اور جامد اعداد  وشمارکی کسی آزاد ذرائع سے تصدیق بھی نہیں ہو سکی اس لئے ان کا حوالہ مناسب نہیں سمجھا گیا۔

یہ ایک حوصلہ شکن حقیقت ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ یہ بے خبری اور لاپرواہی ہمارا اجتماعی قومی رویہ بن چکی ہے ۔ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ جمود کب ٹوٹے گا کیونکہ ہم نے تو ابھی شروعات بھی نہیں کی۔ اگر ہم نے روش نہ بدلی تو کوسمبہ اور ایسی اور بہت سے بھولے بسرے پودے بلھےشاہ جیسے شاعروں کے نوحوں میں ہی ملیں گے۔


سید قمر مہدی لاہور میں مقیم عالم اشجار ہیں وہ پنجاب لوک سجاگ میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (10) بند ہیں

Raza Oct 16, 2012 06:26pm
Assalmu Alaikum sayed qamar Mehdi ap bhot achi malomat data ho, bair , rashmi phal , or, digar darkhto ka baray ma batay ho mujeh bhot acha lagta hai.
یمین الاسلام زبیری Oct 16, 2012 10:53pm
بہت خوب. لگتا ہی نہیں تھا کہ اتنے مختصر مزمون میں اتنی معلومات ہو گی. کیا قمر صاحب کوئی کتاب یا ٹی وی سریز وغیرہ کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں. یہ پنجاب لوک سجاگ کیا ہے. کیا ان کی کوئی وب سائٹ بھی ہے. اخبار میں ایسی معلومات چھپنا بہت اچھا ہے پر اخبار، خاص کر کاغزی، دو چار گھنٹے میں پرانا باسی ہو جاتا ہے. مجھے یقین ہے کہ قمر صاحب کے زہن میں کوئی منصوبہ ضرور ہو گا، اور وہ کوئی کتاب بھی ضرور لکھ رہے ہوں گے. قمر صاحب کا شکریہ.
Qamar Mehdi Oct 17, 2012 07:08am
اچھے الفاظ کے لئے شکریہ۔ یہ شائع نہ ہو سکنے والی کتاب کا ہی مواد ہے جو اب ان بلاگز کی صورت آپ کے سامنے ہے، ان کے علاوہ تمام درختوں کی زندگی کے مختلف مراحل اور سال کے مختلف حصوں اور موسموں میں ان کی تصاویر بھی بنائی ہوئی ہیں پر اب ہم نے کتاب پڑھنی چھوڑ دی ہے اس لئے چھپنی بھی کم ہوگئیں ہیں۔ دیکھئے یہ آرزو کب پوری ہوتی ہے پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
asma zulfiqar Oct 17, 2012 01:13pm
another exlnt piece of grt research n hard work....i ll try to convey ur research to herbalists so that they may get benefit....i think u shld seriously think abt to collect all blogs or research at one place...i mean in d form of book...BOOK LOVERS AAJ BHI MOJUD HEIN.......thnx
یمین الاسلام زبیری Oct 18, 2012 12:01am
لیکن وہ پنجاب لوک سجاگ کے متعلق آپ نے کچھ نہیں لکھا. میرا ایک شعر آپ کی نظر: ہے تاسف کی جگہ کیا کہوں تم سے یمین ÷ سو رہے ہیں لوگ اپنے سر کتابوں پر دھرے.
عمران گبول Oct 18, 2012 08:38am
قمر مہدی دھرتی کا قرض احسن طریقے سے چکا رہے ہیں اور خاص طور پر پھولوں اور پھلوں کے بارے میں انکا ریسریچ ورک نہ صرف بہت عمدہ ہے بلکہ بہت ہی علمی معاونت کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے خیالات، تصورات اور کام کے طریقہ کار کی طرف راغب کرتا ہے بلاگ میں جو ترکیب اور حوالے شامل کیٰے گٰیے ہیں بہت تاریخی اور واضح ہیں بلھے شاہ کے کلام نے اس پھول کی رونق اور بڑھا دی ہے
Dr. S.N.Sewak Oct 19, 2012 02:29pm
Qamar Mehdi's work in the field of nature is really praise-worthy. He is doing a lot of research to add to human knowledge about plants, trees,and flowers.I salute him for his remarkable work. - S.N.Sewak
Iftikhar Ul Hassan Raiwindi Oct 19, 2012 03:46pm
ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان اپنے اپنے علاقے میں گرین کونسل کے ساتھ ملکر درخت لگائیں ۔اور غیر سیایس مقاصد کے لئے زیادہ سے زیادہ ہمارے ممبر بنیں۔ علاوہ ازیں شجر کاری کے ماہرین سے بذریعہ ہذا درخواست ہے کہ بہترین شجر کاری کے لئے ہماری راہنمائی کی جائے۔اور اس سلسلہ میں کوئی کتاب شائع ہوئی ہو تو آگاہ کیا جائے۔
ناصرہ حبیب Oct 21, 2012 10:00am
مضمون اپنے علمی اور ثقافتی حوالے کی وجہ سے بہت اہم ہے۔ اپنے گھروں کی حدود کے اندر رہتے ہوے بھی ہم ان ماحول دوست پودوں کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔
mohsin Oct 26, 2012 06:30am
پنجاب دا ذکر پنجابی زبان چہ ہووے تاں ہی مزا ہے پنجابی زبان کوئی لوکل زبان نہیں وائس آف امریکہ نوں پنجابی زبان چہ سروس دے کے 13 کروڑ پنجابیاں دا مان رکھنا چاہیدا ہے بھلے گرمکھی یا شاہ مکھی کسے وی سکرپٹ چہ سروس دیو ساڈے لئی آدر سمان ہوسی