سکھ چین — فوٹو بشکریہ مصنف

انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس ، بنگلورو کے سائنس دانوں نے امید کی جو کرن  ایک دیہاتی علاقےکے دورے کے دوران  دیکھی تھی تحقیق نے سکھ چین کو ایک روشن مینار بنادیا۔

سکھ چین کا درخت چار سال میں پھول دینا شروع کرتا تھا اور دس سال کی عمر میں مکمل درخت اور بھرپور پیداوار کے قابل ہوتا تھا، پرعزم سائنسدانوں نے  پیوند کاری سےاس کی ایسی قسم تیار کی جو تین سال کے قلیل عرصے میں ہی مکمل درخت اور بھرپور پیداوار دیتی ہے۔ اس طرح انتظار کی مدت ختم ہوئی اور اس کی کاشت بطور ایک فصل کے ممکن ہوئی۔

اب مرحلہ تھا خود کشی پر آمادہ مایوس کسانوں کو یہ باور کرانے کا کہ سکھ چین کی کاشت ان کی زندگیوں میں سکھ چین لاسکتی ہے۔ ایک ایسی فصل جو ان کی غذأ نہیں بن سکتی ان کو غذائی قلت سے نجات دلا سکتی ہے۔

یہ ایک صبرآزما اور کٹھن کام تھاجسے بہت تندہی سے انجام دیا گیا۔ کاشکاروں کو حیرت ہوئی جب انہوں نے جانا کہ چاول کی چار ایکڑ پر کاشت کے لئے جتنا پانی چاہیے اسی پانی میں سکھ چین ایک سو پچاس ایکڑ پر کاشت ہوسکتا ہے۔

سکھ چین — فوٹو بشکریہ مصنف

اپنی نوعیت کی اس انوکھی مہم کو کامیابی اس وقت ملی جب حکومت نے سکھ چین درخت کی کاشت اور اس سے معاشی طور پر منافع بخش پیداوار حاصل ہونے کے عرصے میں جو تین سال پر محیط تھا کے لئے کاشتکاروں کو 300 کلو گرام چاول فی ایکڑ کی امداد دینا منظور کیا۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ ایکڑ زیرکاشت لائے گئے اور کاشت سے منافع بخش ہونے تک کے عرصے میں ان کی غذائی ضروریات کے تحفظ نے کاشتکاروں کو آمادہ کیا کہ وہ اس نئے اور انوکھے سفر پر روانہ ہوں۔

تحقیق اور اسے کاشتکار تک پہچانے کے لئے ادارے ہر سطح پرمملکت خداداد پاکستان  کے ہر صوبے میں بھی موجود ہیں۔ زمین کی زرخیزی اور میٹھے پانی کی کمیابی جیسے مسائل بھی موجود ہیں اگر کمی ہے تو اس درد دل کی جو ہمیں اپنے ہم وطنوں کے درد کو اپنا ہی درد سمجھنے پر مجبور کرے، کمی ہے تو ادارہ جاتی سطح پر ارادے کی اور انفرادی سطح پر اپنے کام کو ایسے کرنے کی کہ جیسا کرنے کا حق ہے۔

نہری نظام میں توسیع اور دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے لئے ڈیموں کی تعمیر اور موسمی تغیرات کی بنا پر دریاؤں میں پانی کی کمی نے سب سے زیادہ صوبہ سندھ کو متاثر کیا ہے۔ میٹھے پانی کے سندھ ڈیلٹا میں نہ جانے کی وجہ سے سمندر کا پانی اوپر خشکی چڑھ آیا، سائنسی اصطلاح میں اسے "سی واٹر اٹروجن" کہتے ہیں۔ اس نے زیرزمین پانی کو کھارا اور زمین میں نمکیات کی مقدار کو خطرناک حد تک بڑھا دیا۔ اورنتیجےمیں سندھ کے کئی اضلاع کی زمین میٹھے پانی کی عدم دستیابی کے باعث قابل کاشت نہ رہی۔

سکھ چین — فوٹو بشکریہ مصنف

پانی کی مقدار کو بڑھانے پر ہم قدرت نہیں رکھتے اور شاید تحقیق پر یقین۔ اسی لئے جس چیز میں اضافہ مسلسل ہورہا ہے وہ غربت ہے۔ بے اندازہ زمینیں اپنے مسیحا کے انتظار میں ہیں، مگر وہ کب آئے گا؟

سفر وسیلہ ظفر کا محاورہ بھی اس مہم کے دوران لوگوں کو اپنے معنی  بہتر طور پرسمجھانے میں کامیاب ہوا اور اس میں شامل افراد، سرکاری اور نجی ادارے سب ہی نئے تجربات سے گذرے اور کامیابی کو ایک الگ اور اجتماعی طور پر محسوس کیا گیا۔اس کی ابتدأ چند ہزار خاندانوں اور دس ہزار ایکڑ پر سکھ چین کی کاشت سے 2003 میں کی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑھ کر چالیس ہزار خاندان ایک لاکھ ایکڑ پر سکھ چین بونے اور سکھ چین ہی کاٹنے میں مصروف ہو گئے۔

جہاں سکھ چین نے لوگوں کی زندگی سے مایوسیوں کے اندھیرے ختم کر کے امید کی روشنی  بھر دی وہیں خود اس کی اپنی زندگی کے اسرارورموز بھی اس کے ہم وطنوں پر آشکار ہونے لگے۔ جو پہلے کہیں صرف ایک اچھی مسواک تھی اور کہیں صابن بنانے کا ایک تیل، اب ایک بھرپور معاشی سرگرمی کا محرک اور طویل عرصے ساتھ نبھانے والا اور سکھ چین باٹنے والا ہم سفر بن گیا، اور یہ سب خود انحصاری کے جذبے، یقین محکم اور تحقیق کی بدولت ممکن ہوا۔

اس کے وجود کا ہر حصہ نمو پانے سے فنا ہونے تک معاشی سرگرمیوں کا سرخیل اوراپنے ہم وطنوں کے لئے باعث راحت ہوتا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جو ہمیں تجربے سے حاصل ہوئی۔ سکھ چین زمین کے اوپر کیا کارہائے نمایاں انجام دیتا ہے اس پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، زمین کے نیچے بھی اس کی کارکردگی کچھ ایسی ہی ہے۔ اس کی جڑوں کا بے حد مربوط  اور پھیلا ہوا جالزمین کے نامیاتی خزانے میں بے حد اضافے کا باعث ہوتا ہے۔

شروع میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا تھا کہ اس کا تعلق پھلی دار درختوں اور پودوں کے خاندان ‘‘فیب ایسی’’ سے ہے۔ اس خاندان کے سبھی ارکان ایک خاص صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کی جڑوں کا ایک حصہ جسے ‘‘روٹ نوڈلز’’ کہتے ہیں ‘‘نائٹروجن فکسنگ’’ کرتا ہے یعنی ہوا میں موجود نائٹروجن گیس کو پودوں کے استعمال کے قابل نائٹروجن کھاد میں تبدیل کرتا ہے اس طرح کود اس کی اپنی ضروریات کے علاوہ اردگرد کی زمین بھی رزخیز ہوجاتی ہے یوں بنجر زمین کو بحال کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔

سکھ چین کی جڑوں کا ہمہ جہت نظام گہرائی میں جاکر زمین میں پوشیدہ قدرت کے بےبہا خزانے خود اس کے انپے لئے اور اردگرد کی زمین پر کاشت کئے گئے اور پودوں کے لئے دستیاب کرنے کا اہم فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔سکھ چین کی کاشت کوئی مشقت بھرا کام نہیں۔

اسے بیج سے ہر طرح کی زمین بنجر یا زرخیز، کلراٹھ اور شورزدہ سب میں ہی یکساں طور پر کاشت کیا جاسکتا ہے۔ اسے پوری دھوپ درکار ہے اور یہ حیران کن حد تک موسمی تغیر اور درجہ حرارت میں کمی بیشی کو برداشت کر سکتا ہے۔ نقطۂ انجماد سے بھی پانچ ڈگری نیچے سے لے کر جنوبی پنجاب کے گرم صحرائی علاقوں کا پچاس ڈگری سے بھی زیادہ گرم موسم اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں۔ زندگی کی شروعات میں کچھ توجہ کا طالب ضرور ہوتا ہے کہ اس کی ابتدائی تراش خراش سے ہی اس کے خدوخال بنائے جاتے ہیں اور زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔

آندھرا پردیش کے اس کامیاب تجربے سے علم میں اضافہ ہوا اور نئی راہیں کھلی، بیجوں سے تیل حاصل کر لینے کے بعد بچ جانے والا پھوک جانوروں کے کھانے کے لائق نہ تھا  مگر کھیتوں میں بطور کھاد استعمال ہوسکتا تھا، سائنسدانوں نے اس کے خمیر سے پیدا ہونے والی گیس کو کھانا پکانے اور بطور بائیوگیس موٹر گاڑیاں ٹریکٹر اور ٹیوب ویل وغیرہ چلانے کے لئے استعمال کیا اور اس سے بھی بچ جانے والے مادے کو بہترین نامیاتی کھاد قرار دیا، گویا صرف ایک ہم وطن پودے نے امید کے اتنے دیئے روشن کئے کہ گاؤں کے گاؤں اس کے نور سے جگمگانے لگے۔

سکھ چین ہمارا اپنا درخت ہے، اس پر تحقیق انڈیا کے علاوہ امریکہ اور دوسرے ممالک میں بھی ہو رہی ہے اور اسے متفقہ طور پر زرعی شجرکاری کے لئے بہترین انتخاب کہا جا رہا ہے۔ اس کی وسیع اور گھنی چھتری ہمیں ٹھنڈی چھاؤں تو دیتی ہی ہے ساتھ ہی زمین سے نمی کے بخارات میں تبدیل ہو کر اڑ جانے کے عمل کو روکتی ہے، اس کی جڑیں زمین میں نمی محفوظ رکنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہیں۔

سکھ چین — فوٹو بشکریہ مصنف

اس کے گرم موسموں کو برداشت کرنے کے مزاج کی بنا پر افریقی ممالک یوگنڈا اور کیمرون نے 2004 میں اس کی کاشت وسیع رقباجات پر کی ہے ۔ اس پر بھی غور کیا جارہا ہے کہ اس کی کاشت براعظم افریقہ کے طول عرض میں کی جائے تاکہ زیرزمین نمی کو برقرار رکھا جاسکے، زیر زمین نامیاتی مادے میں اضافہ ہو۔ صحرا ٔ کو بڑھنے سے روکا جاسکے اور ساتھ ہی ساتھ بائیو ڈیزل کی بھرپور فصل بھی حاصل کی جاسکے۔ایک بار کاشت کیا جانے والا سکھ چین پچاس برس تک بھرپور پیداوار ایتا ہے۔

آیئے اب کچھ احوال مملکت خدادا پاکستان میں سکھ چین اور اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کا ہوجائے۔ صورت حال کچھ اچھی نہیں ہے۔لاہور کی پرانی شجرکاری کے کچھ عمدہ شجر اب بھی لاہور کی سڑکوں اور باغوں میں موجود ہیں۔ باقی سب اللہ اللہ ہی ہے۔ اول تو نئی تعمیرات اور ان کے ڈیزائن میں پودوں اور درختوں کے لئے کوئی جگہ مختص کر نے کا کوئی رواج ہی نہیں رہالیکن اگر کسی نئی تعمیر کی گئی سڑک کے اطراف کسی قسم کی شجراکاری کے لئے جگہ چھوڑی بھی گئی ہے تو اس پر کسی بدیسی پودوں کا قبضہ نظر آئے گا.

بدیسی پودوں کا بھی کیا قصور، وہ خود کب یہاں خوش رہ سکتے ہیں، ان کی نشو ونما بھی تو ٹھیک سے نہیں ہوتی، مگر کیا کیا جائے اس لالچ اور جہالت کا کہ جو اسی پر اسرار کرتی ہے۔ ویسے تو دستیاب وسائل اور ترقیاتی کاموں کے لحاظ سے  پنجاب میں لاہور کےعلاوہ،  کوئی بھی شہر بڑا شہر کہلانے کے قابل نہیں ہے۔ پھر بھی تقابل کے لئے اگر ملتان ، فیصل آباد اور راولپنڈی وغیرہ کو دیکھا جائے تو وہاں نئی شجر کاری کی بجائے بزرگوں کے لگائےدرختوں کی بربادی ہی نظر آتی ہے۔

ملتان میں جو سڑکیں بجا طور پر ٹھنڈی سڑک کہلاتی تھیں آج دھوپ سے بھری، بے رحم  اور مسافر کش دیکھائی دیتی ہیں۔ دور دور تک کہیں سستانے کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ پیدل چلنے والوں کے لئے فٹ پاتھ تو غائب ہوئے ہی ہیں سایٔہ بھی جاتا رہا۔

کسی موٹر وے کسی ہائی وے پر کہیں سکھ چین کے بندہ پرور درختوں کی کوئی قطار نہیں ہے۔ اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ سمیت کئی شہروں کی ایسی ہی شاہراہوں پرجہاں کے موسمی حالات ان کی کاشت کے لئے ہر گز موزوں نہیں کھجور کے موسم سےجھوجھتے، پریشان درختوں کی قطار دیکھ کر انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے۔

ملتان میں مرطوب علاقوں کے پام اور سائیکس پام (کنگھی پام) اور اسلام آباد میں کھجور۔ میٹھے اور نمکین پانی کے درمیان پنپنے والے مخصوص پودے جنہیں ‘‘مینگرووز’’ کہا جاتا ہے سے کراچی کی سڑکوں کو بھر دیا گیا اور اب وہ بد نصیب پودے پورے سندھ، ملتان اور لاہور کی سڑکوں پر بھی نظر آرہے ہیں۔

اس بے حسی اور غیر منطقی رویے کی کیا وجہ ہے؟  

کیا صرف کم علمی اور نااہلی  ہی اس کی بنیادی وجہ ہے کہ کہ ہمارے سول سروس کے بابو پودوں کے بارے میں نہیں جانتے ۔ تو کیا ایسی کوئی پابندی ہے کہ کسی ماہر سے پوچھا نہیں جاسکتا؟ کیا یہ نااہلی اور جہالت سے آگے کی کوئی کہانی ہے جو قابل دست اندازیٔ نیب ہے؟ یہ وہ سب سوالات ہیں جووطن سے پیار کرنے والوں کو بہت پریشان کرتے ہیں، کیا ان کا کوئی جواب ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اس صورت حال کے ذمہ داروں کو پریشان کر سکے؟ اس پر بات ضرور کیجئے اور کوئی بھی حل آپ کو ملے ہم سے سانجھا کیجئے۔


سید قمر مہدی لاہور میں مقیم عالم اشجار ہیں وہ پنجاب لوک سجاگ میں خدمات سرانجام دیتے ہیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Nov 13, 2012 08:43pm
سچ ہو گا اگر کہیں کہ ترقی اس قوم کی قسمت میں نہیں جو کاہلی میں سکھ چین پالے. پہلے بھارت کی حکومت اور ماہرین کو ان کے کارنامے پر مبارکباد. ہمارے ہاں اداروں کے علاوہ سیاستدانوں کی بے حسی بھی ہمیں لے ڈوب رہی ہے. عوام یہی کر سکتی ہے کہ آئیندہ الیکشن میں سیاستدانوں کی بجائے اپنے رہنما چنے. قمر صاحب نے درد دل کی بات کی تو فیض کا شعر یاد آگیا: ہوا جو تیر نظر نیم کش تو کیا حاصل = مزا تو جب ہے کہ سینے کے آرپار چلے.
انور امجد Nov 14, 2012 12:10am
قمر صاحب آپ نے سکھ چیں پر بہت اچھی تحقیق کی ہے۔ لیکن اس کا ملک کو فائدہ اسی وقت ہوگا جب ارباب اختیار تک یہ بات پہنچے اور وہ اس سے فائدہ اٹھانے کے اقدامات کریں۔ آپ نے صحیح گلہ کیا ہے کہ ہمارے سرکاری اداروں میں لوگ صرف بابوؤں کی طرح کام کرتے ہیں۔ جیسا کام چل رہا ہے اسی روش پر چلتے رہتے ہیں اور اس میں بہتری کا مشکل سے ہی کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔ لاہور میں ایک ادارہ پارکس اینڈ ہورٹیکلچر اتھارٹی بھی ہے۔ ان کی ویب سائٹ بھی ہے جو ایک سال سے اپڈیٹ نہیں کی گئی ہے۔ ان کے انٹروڈکشن میں لکھا ہے کہ یہ ادارہ ستمبر 1998 میں اسلئے بنایا گیا تھا کہ لاہور کے درختوں اور گرین بیلٹ کو جو سڑکوں کی ریھیبلیٹیشن کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے اس کو دور کیا جائے۔ بظاہر تو یہ ایک صحیح قدم ہے اور اس طرح کے ادارے دوسرے شہروں میں بھی ہونے چاہیے۔ لیکن ان کی کارکردگی کیا ہے؟
یمین الاسلام زبیری Nov 14, 2012 10:12pm
انور امجد صاحب آپ نے بجا فرمایا. میں اس میں اضافہ یہ کروں گا کہ بابو سے کام لینا سیاستدانوں کا کام ہے، یہ ہم سے اسی بات پر ووٹ لیتے ہیں کہ یہ بابو کو قابو کر کے اس سے کام لیں گے. ایک طرف یہ نام نہاد سیاستدان خود کام نہیں کرنا چہتے دوسرے فوج رخنا ڈالتی ہے.