پنڈت روی شنکر -- فائل فوٹو --.
پنڈت روی شنکر -- فائل فوٹو --.

روی شنکر کو موت بھی خاموش نہیں کرسکتی۔ جب تک یہ سیارے کائنات میں گردش کرتے رہیں گے اور الیزبتھنز کے بقول آکاش کے بیچ ہم آہنگی رہے گی تب تک روی شنکر کی آواز  گونجتی رہے گی۔ ان کو بجاتے ہوئے سن کر بلکل ایسا لگتا تھا جیسے انسان کے اندر کوئی دیوتا۔

میں نے پہلی دفعہ روی شنکر کو ستمبر سن 1964 میں لندن میں سنا۔ یہ ایک سے زیادہ طریقوں میں ایک ہندوستانی موسم گرما لگ رہا تھا۔ روی شنکر چند مایہ ناز ہندوستانی موسیقار اور رقاص کے گروپ کے ساتھ کرامویل روڈ پر  واقع رائل کامن ویلتھ انسٹی ٹیوٹ میں پرفام کررہے تھے۔

اچانک کچھ ہی ہفتوں میں سرود بجانے والے استاد علی اکبر خان، طبلہ کے ماہر استاد الله رکھا بھرت ناٹیم رقاص کے گورو بالسرسوتی لندن میں ایسے مشہور ہوئے جیسے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے۔

تب تک لندن میں ہندوستان کو لوگ خوشبو کے حوالے سے ہی جانتے ہیں۔ آگر کوئی پارک لین میں چلتا ہوا جاتا تو آکسفورڈ اسٹریٹ میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسے پتہ چل جاتا کہ ہندوستانیوں کی دکان نکڑ پر ہی ہے۔ اس دکان سے پھیلنے والی خوشبو اتنی تیز ہوتی کہ ساتھ ٹھیلوں پر موسم گرما کے پھول بھیجنے والوں کے پھولوں کی خوشبو بھی مدھم ہوجاتی۔

ریستوران کو اپنا پتہ تشہیر کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی اور کسٹمر محض اپنی ناک میں آتی خوشبو کی مدد سے وہیں پہنچ جاتا۔ اور پھر اتوار کی صبح وارن اسٹریٹ پر ایک گندے سے سینیما میں ہندوستانی فلم دیکھائی جاتی جسے دیکھنے کے لیئے اپنے وطن کوشدد سے یاد کرنے والے ہندوستانی جمع ہوتے اور سرد مہر لندن میں داخل ہونے سے پہلے اگلے تین گھنٹوں تک سموسے، دال چنا اور پکوڑے سے لطف اندوز ہوتے۔

لیکن پنڈت روی شنکر کے لندن میں ستار کے تار چھیڑتے ہی سب کچھ بدل گیا۔ اب ہندوستان کو لوگ ثقافت سے بھی جاننے لگے ناکہ گائے اور زراعت سے۔ اسی طرح ان کے ستار بجانے کی طرح لندن میں آنے کا وقت بھی نہایت موضوع تھا۔ سن انیس سو ساٹھ کے اواخر میں مغرب ہندوستان کے اوپر فوقیت رکھنے کے بجائے اس کے ساتھ گھولنے ملنے کو تیار تھا۔

روی شنکر نے اپنے کیریر کا آغاز ان کے بڑے بھائی ادے شنکر کی قیادت میں بنے گروپ میں رقص سے کیا۔ ادے اور رام گوپال مغرب میں ہندوستانی رقص کو متعارف کرانے کے دو علمدار تھے۔ مغربی بیلیرینا  جیسے کہ مشہور ایلسیا مرکوا اس آرٹ کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں۔

انہون نے ڈویٹ مین رام گوپال کے ساتھ پرفام کیا۔ لیکن روی شنکر صرف ایک چیز پر ٹہرنے والے نہیں تھے۔ اور افریکی امریکی بلوز سنگر -  ایلا فیٹزگیرالڈ کی طرح جنہوں ڈانس سے شروعات کی لیکن بعد میں گائکی میں اپنا لوہا مانوایا، روی شنکر نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ اس ڈانسر کو موسیقار بننا چاہیے۔ انہوں نے سات سال استاد الاؤددین کی شاگردی میں گانا بجانا سیکھا اور استاد-شاگرد کا یہ رشتہ روی شنکر کا اپنے استاد کی بیٹی کے ساتھ شادی کے بعد مزید مضبوط ہوا۔

پنڈت روی شنکر کے ٹیلنٹ کو اس سے زیادہ خراج تحسین نہیں پیش کیا جاسکتا کہ ان کی دوستی وایلنسٹ یھودی مینیھون سے تھی۔ یہودی ایک غیر معمولی ذہانت سے بھرپور ایک ایسا بچہ تھا جس نے پہلی سولو اویلن پرفامنس امریکہ میں سان فرانسسکو سمفنی کے ساتھ سن انیس سو تئیس میں سات سال کی عمر میں دی۔ انہوں نے اپنی پہلی ریکارڈنگ سن انیس سو انتیس میں کی اور آخری ستر سال بعد سن انیس سو ننانوے میں کی۔

آگر دونوں کا موازنہ کیا جائے تو روی نے ڈانس چھوڑ کر موسیقی کے شعبے ذرا دیر سے قدم رکھا۔ دونوں موسیقار ایک دوسرے سے سن انیس سو پیسٹھ میں ملے جب وہ اقوام متحدہ کے کانسرٹ 'مغرب کا مشرق سے ملاپ(ویسٹ میٹس ایسٹ)' میں پرفارم کررہے تھے۔ دونوں ملے اور اس طرح ملے کہ دونوں کے سر بھی ملنے لگے۔

مینہون نے روی شنکر کے بارے میں نہایت عزت و احترام سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ روی شنکر بے پناہ دانشورانہ اور بہترین موسیقی کی صلاحیت کے حامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹھیک نہ ہوگا آگر میں کہوں کہ کوئی دانشورانہ صلاحیت تو نہیں رکھتا لیکن گاتا اچھا ہے کہ لوگ اسے سنتے ہی ساکت رہ جاتے ہیں کیوں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ہندوستانی میوزک بجائے اور اس کی ذہنی صلاحیت کمزور ہو۔ ایک ستار بجانے والا جس کے پاس ٹیلنٹ کی کمی ہو اس کے پاس ناظرین کو خوش کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہوگا سوائے ایک بور کرنے والے میوزک کے۔

پنڈت روی شنکر نے کبھی بھی اپنے پرستاروں کو بور نہیں کیا، البتہ  ان کے خاص پرستاروں نے محسوس کیا کہ ان کی برطانوی پاپ گروپ دی بیٹلز کے ساتھ ایسوسی ایشن کے بعد پرفامنس میں کچھ کمی آئی تاہم ان کی شہرت پر یہ چیز اثر انداز نہیں ہوئی۔

علاوہ ازیں آنے والے سالوں میں روی شنکر نے اپنی بیٹیوں – انوشکا اور نورح جونز کے ساتھ پرفام کیا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی دونوں بیٹیوں کو دونوں ملکوں میں – امریکہ اور ہندوستان میں جہاں سے روی شنکر کا تعلق تھا الگ الگ  خطاب ملے۔

روی شنکر کبھی پاکستان نہیں آئے۔ وہ یہاں آکر نہیں دیکھ پائے کہ کس طرح صلاحیت سے بھرپور کم عمر بچے وہ ہنر سیکھنے کے لیئے جدوجہد کررہے ہیں جو انہیں ان کے مسلمان استاد سیکھایا تھا۔ وہ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ پاکستانی اسکولوں میں کس وجہ سے میوزک نہیں پڑھایا جاتا، کس وجہ سے گانے بجانے کے تار گل سڑ جاتے ہیں جنہیں انسان کی انگلیوں کی طلب ہوتی ہے اور کیوں کوئی اسکول آکیسٹرا کو فروغ نہیں دیا۔

انہیں پاکستانی ناظرین کا شکار نہیں ہونا پڑا جن کی توجہ کا دورانیہ محض چند منٹ پر مبنی ہوتا ہے کہ وہ بات چیت کے دوران بیچ بیچ میں متوجہ ہوجاتے ہیں۔ ورنہ وہ یہ ضرور سوچتے کہ کیسے کوئی قوم موسیقی کی روح کو جانے بغیر زندہ ہے۔

یہ کہنے والے وہ اکیلے نہ ہوتے۔ یہاں بھی بہت سے رہتے ہیں – البتہ بہت کم ہیں، لیکن کچھ کا کہنا تھا کہ پاکستانی سوسائٹی ایک ایسی تصویر کی مانند ہوگئی ہے جس میں ایک ہی رنگ کے کئی روپ بھرے گئے ہوں۔ اس طرح ہمیں قوسِ قزح میں ابھرے رنگوں کے درمیان فرق کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمیں ان انگلیوں کی ضرورت بھی نہ ہوگی جو یہ موسیقی کے الے بجا سکیں اور نہ ان کانوں کی ضرورت پڑے گی جو اعلی میوزک اور شور میں تفریق کرسکے۔

آگر ہم پاکستان میں رہنے والے پنڈت روی شنکر کی موت پر افسردہ ہیں تو ان کے دو لیول ہیں۔ ایک ہم عالمی شہریت یافتہ ستار استاد پر افسردہ ہیں اور دوسرے ہم روی شنکر اور اپنے اوپر آنسو بہا رہے ہیں اور اس کی مثال بلکل ویسی ہی ہوئی جیسے کہ کسی میت پر روتی ہوئی عورت سے جب یہ پوچھا جائے کہ کیا وہ مرنے والے کو کیا بخوبی جانتیں تھیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ وہ ان پر نہیں اپنی حالت زار پر آنسو بہا رہیں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں