مستونگ میں دھماکے سے تباہ ہونے والی بس کے قریب سیکیورٹی اہلکار چوکس کھڑا ہے۔ فوٹو اے ایف پی۔۔۔

گزشتہ سالوں کی طرح سال 2012 بھی صوبہ بلوچستان کے عوام کیلیے ہولناک ثابت ہوا جہاں ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور دیگر واقعات میں سات سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔

وادی کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں دو ہزار بارہ میں بھی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا جس کے باعث گذشتہ دو سالوں کے مقابلے میں اس سال ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور اٹھارہ سو پینسٹھ واقعات میں سات سو پچیس افراد لقمہ اجل بن گئے۔

اس حوالے سے نیشنل پارٹی کے رہنما طاہر بزنجو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں کہیں بھی حکومتی رٹ نظر نہیں آتی۔

رواں سال پولیس اور لیویز سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کو بھی بڑی تعداد میں نشانہ بنایا گیا اور ایک سو ساٹھ کے قریب افسران اور اہلکار فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

دو ہزار تیرہ  میں صوبائی دارالحومت کوئٹہ میں امن و امان کی صورتحال سب سے زیادہ خراب رہی جہاں ایک سو پچاسی واقعات میں دو سو ساٹھ افراد ہلاک  اور پانچ سو پچھتر کے قریب زخمی ہوئے۔

سیکریٹری داخلہ اکبر درانی کا کہنا ہے ان واقعات کی بڑی وجہ انٹیلی جنس نیٹ ورک کا موثر نہ ہونا ہے۔

ہم یہاں تمام واقعات کا تذکرہ تو نہیں کر سکتے تاہم اس سال پیش آنے والے اہم واقعات درج ذیل ہیں۔

اہم واقعات:

دو نومبر کو مسلح شخص نے پیٹرول پمپ پر کھڑی وین پر فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے کم از کم 18 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اٹھائیس جون کو کوئٹہ کے مضافاتی علاقے ہزار گنج میں ایران سے آنے والی زائرین کی بس کو بم سے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں کم از کم 13 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے تھے۔

تیس دسمبر کو مستونگ کے علاقے میں ریموٹ کنٹرول بم سے تین مسافر بسوں کو نشانہ بنایا گیا جس کے باعث 20 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے تھے۔ بم ایک گاڑی میں نصب کیا گیا تھا اور بسیں زائرین کو لے کر ایران سے آرہی تھیں۔

اٹھارہ جون کو کوئٹہ میں یونیورسٹی کی بس پر خود کش حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں بلوچستان یونیورسٹی کے چار طلبا سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور 72 زخمی ہو گئے تھے۔

دو ہزار بارہ میں ریلوے لائن بجلی کے کھمبوں اور گیس پائپ لائنوں کو اڑانے کے مجموعی طور پر پنسٹھ واقعات رونما ہوئے جن میں کڑوڑوں کا نقصان ہوا۔

یہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں صوبائی حکومت صوبے میں امن و امان قائم کرنے مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں