پرویز مشرف۔ - اے ایف پی فوٹو

اس لمحے کی پیشگوئی کئی بار کی جاچکی تھی لیکن یہ حیران کُن انداز میں سامنے آیا۔ جمعرات کو سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف ججز نظر بندی کیس میں، درخواستِ ضمانت لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے۔

ایک روز پہلے ہی انہیں بینظیر بھٹو قتل کیس میں ضمانت مل چکی تھی اور شاید اس بار بھی وہ مثبتِ ردِ عمل کی توقع رکھتے ہوں گے لیکن انہیں شدید دھچکا پہنچا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواستِ ضمانت مسترد کرتے ہوئے مشرف کو گرفتار کرنے کا حکم دیا لیکن فوج کے سابق سربراہ کو محافظوں نے احاطہ عدالت سے نکال کر، اُن کے فارم ہاؤس تک پہنچادیا۔ جو کچھ ہوا، شاید اس کا تصور بھی اُن کے لیے محال ہوگا۔

اپنی واپسی پر انہیں گرمجوش استقبال کا سامنا کرنا پڑا؛ ایک کے بعد ایک، ہر انتخابی حلقے سے اُن کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کیے جاتے رہے۔

یہ بھی طرفہ تماشہ ہے کہ ان کی وطن واپسی پر میڈیا اور سول سوسائٹی نے اپنا ردِ عمل ظاہر کیا مگر سیاسی جماعتیں چُپ سادھے رہیں۔ بلاشبہ یہ اس بات کی مثال ہیں کہ 'ہر شخص دنیا میں اپنا مقام تلاش کرسکتا ہے، ہر شخص ماسوائے اُس کے۔'

اگر کچھ اور بھی نہیں تب بھی مشرف جیسا ایک شخص جو طویل عرصے تک نظام کا حصہ رہا ہو، اُنہیں یہ احساس کر لینا چاہیے تھا کہ کسی بھی حلقے کی جانب سے کوئی بھی یقین دہانی، یہ بات یقینی نہیں بناسکتی تھی کہ وطن واپس لوٹنے پر اُن کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔

وہ اس صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے نہایت سادہ طور پر بینظیر بھٹو کے ساتھ اپنی 'ڈیل' یاد کرسکتے تھے لیکن مشرف نے حساب کتاب لگانے میں ایک بار پھرغلطی کردی۔

تب اُن کے پاس وقت تھا وہ دوبارہ یہ کہہ سکتے تھے کہ قانون کی پاسداری کریں گے مگر ایک بار پھر انہوں نے قانون کی حد عبور کرلی۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ ہاتھ کھڑا کردیتے اورعدالت میں گرفتاری پیش کردیتے۔ اُس کے بعد ان کے حق میں جو بُرا ہوچکا وہ پھر بھی کچھ کم ہوتا۔

اس حوالے سے ایک لطیفہ گردش میں ہے کہ کمانڈو جو جمعرات کو عدالت سے بھاگ گیا، بلاشبہ ان کے سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے۔ انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وقار قانون کے آگے سرِ تسلیم خم کردینے میں ہے نا کہ اُس سے انکار میں۔

اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ پر بھی احتیاط لازم ہے۔ آمروں کے عدالتوں کے ساتھ تصادم ہماری یادداشتوں میں میں اب تک تازہ ہیں، سابق آمر کو بھی چاہیے کہ جب اُن کے خلاف مقدمات کی سماعت ہو تو وہ ہوشیار رہیں۔

ایک لمحے کے لیے بھی کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ عدالت انصاف کرنے کے بجائے انتقام لے رہی ہے۔

تاریخ نے تو جنرل کا فیصلہ پہلے ہی کردیا ہے۔ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملی اور پھرانہیں شکست کا پیام ملا۔ اب ایسا کچھ کم ہی بچا جو قانون اس میں شامل کرسکے۔

کسی قانونی حکمنامے کے سبب، جس کا بدستور خطرہ موجود ہے کہ وہ انہیں شہید بناسکتا ہے، بلاشبہ ان کے مقدر پرعوام نے زیادہ موثر انداز میں اپنے فیصلے کی مہر تصدیق تثبت کردی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں