بلوچستان اسمبلی، فائل تصویر
بلوچستان اسمبلی -- فائل تصویر --.

کیا میاں نواز شریف کا بلوچستان کی وزارت علیٰ کے لئے اپنی جماعت سے باہر کے امیدوار کےانتخاب کا قابل ستائش فیصلہ، زیادہ ترغلط سمجھے گۓ اور مسلسل نظر انداز کیے گۓ وفاقی اکائی میں آسودگی، اچھی انتظامیہ، اور ترقی کی امید کو اجاگر کرے گا؟

ایک قابل غور حد تک، پاکستان کے مستقبل کا انحصار اس جواب پر ہے جو ہمیں اس سوال سے ملے گا-

موجودہ صورتحال میں بلوچوں کا اعتماد دوبارہ قائم کرنے کے لئے آئین کے لحاظ سے ان کے جمہوری حقوق کا احساس کرتے ہوے، پی ایم ایل- این کے لیڈر نے بہترین ممکنہ راستے کا انتخاب کیا ہے- قومی جماعت کی بلوچ نیشنلسٹس کے مقاصد سے وابستگی جانی پہچانی ہے-

ممکنہ کے فن میں، ڈاکٹر عبدلمالک بلوچ کی مہارت بھی جانی پہچانی ہے- اٹھارویں ترمیم کی گزارشات پر بحث کے دوران، انہوں نے نا صرف اپنے لوگوں کے مطالبات میں تخفیف کر دی بلکہ اس سے کم پر رضامند ہو گۓ- انہیں اپنے دوسرے اتحادی ساتھیوں کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہونا چاہیے تا کہ پارلیمانی جمہوریت پر اپنا یقین کھو دینے والے بلوچ عناصر کو ترغیب ملے-

اگر سردار اختر مینگل بھی عام اتفاق راۓ کے عمل میں شریک ہوتے تو یہ ایک خوش کن بات ہوتی- اب بھی ان کے لئے یہ ممکن ہونا چاہیے کہ وہ اپنی ذاتی / جماعتی ناراضگی کو پس پشت ڈال کر سماجی ترقی کے لئے وسیح بنیادوں پر بلوچ جدوجہد کی مدد کریں-

میاں نواز شریف کا یہ فیصلہ ناصرف نیشنل پارٹی کی حمایت میں ہے بلکہ بلوچستان میں ان کی اپنی جماعت کے مفادات میں بھی ہے- آخرالذکر ان آزمائشوں کا ذمہ دار نہیں ہوگا جن کا سامنا نئی صوبائی حکومت کو بیشک کرنا ہو گا- سب سے بڑھ کر یہ بلوچستان کے لوگوں کے لئے موافقت کی پیشکش ہے- اگر اس نظریے کو تمام اتحادی قبول کر لیں تو وہ اپنی زمین پر جعلی اور باعث تفریق سیاست کی روایت کو دفن کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں-

ڈاکٹر مالک کے کٹھن کام کی نوعیت میں مبالغہ آمیزی سے کام لینا مشکل ہے- مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے اپنی کابینہ میں ایک ٹیم کی طرح اتحاد کو یقینی بنا کر ہی وہ ایک اچھے آغاز کے متحمل ہو سکتے ہیں- اس کے لئے بھرپور اتفاق راۓ کی ضرورت ہوگی، نا صرف جماعتی اختلافات سے قطع نظر، بلوچ نمائندوں کے درمیان، بلکہ پختون سماج کے ساتھ بھی-

کئی دہائیوں سے بلوچ - پختون تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں- ان کو انصاف اور غیر جانبداری کی بنیاد پر درست کرنے کی ضرورت ہے- حالات میں بہتری شروع ہو جانی چاہیے اگر نئی حکومت اس تصور کو ختم کر دے کہ بلوچی نمائندگی پر مشتمل اسمبلی، پختونوں کے ساتھ خدمات، اقتصادی موقعوں اور معاشرتی بہبود کے حقوق پرانصاف کر سکتی ہے- یہ ایک خوش کن بات ہے کہ بلوچی پٹھان اپنی خود کی مستحکم جماعت پراعتماد کا اظہار کرتے ہیں-

حالیہ انتخابات، گزشتہ انتخابات سے کافی بہتر رہے ہیں- 2008 میں منتخب ہونے والی اسمبلی کے پاس قانونی حیثیت کی کمی تھی، کیوں کہ نیشنل پارٹی اور کچھ دوسرے گروہوں نے مقابلے کا بائیکاٹ کر دیا تھا- اب جبکہ نئی اسمبلی اس الزام سے پاک ہے، اسے اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ بلوچستان میں مناسب پولنگ کی غیر موجودگی اور کم ٹرن آؤٹ کے باوجود، اس میں پوری آبادی کی نمائندگی کی صلاحیت موجود ہے-

شاید ڈاکٹر مالک کے لئے سب سے چیلنجنگ کام بلوچستان کو ایک باضابطہ اور لائق حکومت دینا ہے- ایک ایسی چیز جو سواۓ کچھ مختصر وقفوں کے لئے، عوام مخالف طرز حکومت کی طویل تاریخ میں بلوچستان کو کبھی نہیں ملی-

بلوچستان ایک ایسی حکومت کا متحمل نہیں ہو سکتا جو کہ سرداروں اور عالموں کی مشترکہ لونڈی ہو- ایک کھلی، شفاف اور بد عنوانی سے پاک انتظامیہ، وہ جو ذمہ دار ہو اور عوامی رسائی میں ہو، صرف وہی بلوچستان کو اس قابل بنا سکتی ہے کہ وہ وقت کے چیلنجوں کا سامنا کر سکے-

انتخابات نے اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا کہ غیر اختیاری گمشدگیوں سے پیدا ہونے والے بحران کو حل کئے بغیر، بلوچستان میں امن و امان قائم ہو سکتا ہے-

اس سمت میں نئی صوبائی حکومت، کچھ زیادہ پیشرفت کے قابل نہیں ہو سکتی جبتک دوسرے وفاقی یونٹس کی طرح اسے بھی اختیارات کے استعمال میں وفاق کی طرف سے مدد نہ ملے- خاص طور سے سلامتی سے متعلق انتظامی معاملات میں- اگر ڈاکٹر مالک کی کابینہ، گمشدہ لوگوں کی لاشوں اور انکی فہرست میں تازہ اضافوں کی روک تھام وقت پر کرنے میں ناکام رہی تو نا صرف یہ اپنی اعلیٰ اخلاقی سطح کو کھو دیگی بلکہ شاید اقتدار میں رہنےکا جواز بھی-

گمشدگی کے مسائل سے نمٹنے کے لئے یہ ضروری ہو سکتا ہے کہ مختصر اور طویل مدّتی منصوبہ بندی کی جاۓ- فوری اقدامات کرنا ضروری ہیں- قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قانون کے نفاز پر مجبور کیا جاۓ، معاوضے کی ادائیگی میں عجلت دکھائی جاۓ اور گزر اوقات کے لئے آفت زدگان کے خاندانوں کے لئے وظیفہ مقرر کیا جاۓ اور گمشدہ لوگوں کی بازیابی کے لئےمناسب کوششیں کی جائیں- وزارت داخلہ بنائی جا سکتی ہے جو گمشدگی کے تمام کیسز کا مکمل اور تاحال ریکارڈ ترتیب دے سکے-

لاشوں کے حوالے سے، نئی حکومت ہر کیس کے متعلق سیشن جج کے ذریعہ عدالتی تحقیقات ضرور کرواۓ - اور اگر یہ پتا چلتا ہے کہ عدالتی افسران کی کمی کی وجہ سے یہ چھان بین مستعدی کے ساتھ نہیں ہو سکتی تو، خصوصی طور پر ماوراۓ قانون قتل اور گمشدہ لوگوں کی مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں بازیابی کا فیصلہ کرنے دو چار سیشن ججز کا تقرر ایک بہترین سرمایہ کاری ہے-

طویل مدّتی منصوبے میں امن و امان کے احاطے کی مکمل تعمیر کی ضرورت ہوگی- یہ ضروری ہوگا کہ ایسی پولیس فورس کی تشکیل کی جاۓ جو شہریوں کی جان اور آزادی کی حفاظت کرنے کی اہل ہو اور جو صوبائی انتظامیہ کے سامنے جوابدہ ہو- صوبے سے باہر کے عناصر کو اگر حفاظتی خدشات ہیں، تو صوبائی سطح پر زیر نگرانی اہلکاروں پر اعتماد شروع کرنے کے لئے انکی مدد کی جانی چاہئے- تحصیل دارانہ نظام کو کمیونٹی پولیس میں تبدیل کر کے اس میں اصلاحات کی جا سکتی ہیں-

ممکن ہے ڈاکٹر مالک کو جن چیلنجوں کا سامنا پڑے وہ ڈرانے والے ہوں اور تجربات کے لئے وقت کم ہو- جلدبازی میں بلوچستان کے دائمی امراض کے علاج کے لئے، ادھورے نسخوں پر عمل کرنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا ان معاملات کو نظر انداز کرنا- بنا وقت ضائع کیے، ابتدائی کاروائیوں کی شروعات کے راستے تلاش کرنے ہیں- لیکن مناسب سوچ بچار کے بغیر نہیں- ایک چیز سب کو اپنے دماغ میں بٹھا لینی ہے کہ بلوچستان کے پاس، اس وقت کے جیسا، سیاسی ہم آہنگی کا موقع پھر نہیں آۓ گا-


ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں