ملتان کی کہانی - 2

اپ ڈیٹ 11 نومبر 2013
فوٹو -- لکھاری
فوٹو -- لکھاری
فوٹو -- لکھاری
فوٹو -- لکھاری

ریل کی سیٹی

ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل .کے روشن استعارے تھے

اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔


تصویری خاکہ ۔ — ماہ جبیں منکانی / ڈان۔ کام
تصویری خاکہ ۔ — ماہ جبیں منکانی / ڈان۔ کام

یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لئے کلک کریں

ملتان کا قلعہ پورے پنجاب میں اپنی مضبوطی کے سبب مشہور تھا۔ اس کی فصیلیں کئی تہوں پہ مشتمل تھیں اور ہر دو تہوں کے بیچ، ریت بھری تھی۔ سکھ فوج اس قلعے پہ کئی بار حملہ آور ہو چکی تھی مگر کامیابی ہنوز خواب تھی۔

مہاراجہ کا مزاج ناکامیوں کا نہیں تھا سو اس نے از سر نو پچیس ہزار کا ایک نیا لشکر تیار کیا اور اسے 1818 میں ملتان کی سمت روانہ کیا۔ اس بار، فوج کے ساتھ دیوان مصر چند، سردار شام سنگھ اٹاری والہ، جعفر جنگ اور سردار دیسا سنگھ مجیٹھیا کے علاوہ ہری سنگھ نلوہ جیسے تجربہ کار جرنیل بھی شامل تھے۔

خالصہ فوج نے آتے ہی شہر کو محاصرے میں لے لیا۔ جب تین ماہ گزر گئے اور فتح کا کوئی امکان نظر نہ آیا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے امرتسر سے اکالی طلب کئے اور نورنگ آباد کے براہم گیانی بابا بیر سنگھ سے ارداس سیکھ لئے۔

دوسری طرف نواب مظفر خان نے بھی زوروں سے جہاد کی تیاری شروع کر دی اور بہت سے غازیان کو اسلام کے نام پہ اکٹھا کیا۔ ایک دوسرے کی جان اور مال کی حرمت سکھانے والے دونوں مذاہب کو ان کے ماننے والوں نے ایک دوسرے کی جان اور حرمت حلال قرار دینے کے لئے خوب استعمال کیا۔

جون 1818 میں خالصہ فوج نے ایک بار پھر پوری قوت سے شہر پہ حملہ کیا۔ زمزمہ اور جنگ بجلی جیسی توپیں، شہر پہ چھ دن آگ اور بارود برساتی رہیں حتیٰ کہ ملتان، سکھوں کے زیر نگیں آ گیا۔

جنگ کے بعد وہی لوٹ مار مچی جو ہر مفتوح شہر کا مقدر تھی۔ سکھ فوج نے خانقاہوں، عبادت گاہوں اور امراء کے محلات کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہر پرانے شہر کی طرح ملتان بسنے سے پہلے ایک بار پھر اجڑ رہا تھا۔

رنجیت سنگھ کے انتقال کے ساتھ ہی سکھ دربار کا سورج بھی غروب ہونا شروع ہو گیا۔ شیر پنجاب کی شیر دل فوج، انگریزوں، سکھ شہزادوں اور رانی جنداں کی تکون سے سر ٹکرا نے لگی۔ انہی حالات کا فائدہ اٹھا کر بہت سے مقامی سرداروں کی طرح دیوان مول راج نے بھی ملتان کی نظامت بیس لاکھ پٹے پہ خرید لی۔

اب اسے رانی جنداں کی سیاست کہئے یا فوج کی حد سے بڑھی خود اعتمادی کہ ایک دن سکھوں نے ستلج کا پاٹ عبور کر لیا۔ دریا کا پار کرنا تھا کہ انگریز فوج نے سکھوں کے ساتھ اعلان جنگ کر دیا۔ پہلی شکست کے ساتھ ہی ایک ایجنٹ بہادر، سکھ دربار میں تعینات ہو گیا اور دیوانی معاملات کا حساب کتاب کرنے لگا۔

دیوان مول راج کو جب پہلی بار ایجنٹ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑا تو اس نے ہتک محسوس کرتے ہوئے استغفٰی دے دیا۔ انگریز سرکار نے ہنسی خوشی استغفیٰ قبول کیا اور اس کی جگہ سردار کاہن سنگھ کو ملتان کا پروانہ دیا۔ شہر کے نظم و نسق میں کاہن سنگھ کا ہاتھ بٹانے کے لئے بنگال سول سروس کے ایگنیو صاحب اور برطانوی فوج کے لفٹینٹ اینڈرسن بھی ملتان آئے۔

چودہ سو سکھ سپاہی، سات سو گھڑسوار، ایک گورکھا رجمنٹ اور ایک توپخانے کی بیٹری کے ساتھ یہ قافلہ بیس اپریل 1848 کو ملتان پہنچا تو مول راج نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور جہاں اب دولت گیٹ کا اسلامیہ ہائی سکول ہے وہاں ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔

تھوڑی دیر بعد چند نا معلوم مسلح افراد نے ان دونوں افسران پہ حملہ کر دیا۔ زخم اتنے شدید تھے کہ انہیں کہیں اور لے جانے کی بجائے سیدھا عید گاہ کے گنبد تلے لایا گیا۔ ڈھائی سو سال پرانی یہ عید گاہ، ملتان کے ایک حکمران عبدالصمد خان نے بنوائی تھی۔

غریب الوطنی اور زخم خوردگی کے اس عالم میں جب دونوں افسران کو پتہ چلا کہ ان کا لشکر اب مول راج کی فوج میں شامل ہو چکا ہے تو ان کے رہے سہے حوصلے بھی جواب دے گئے۔

پہر ڈھلا تو تاج برطانیہ کی مانگ میں مزید دو شہیدوں کا لہو چمک رہا تھا۔ پہلے پہل تو انہیں عید گاہ کے شمالی میدان میں دفن کیا گیا مگر بعد ازاں بلوائیوں نے قبریں کھود کر انہیں نکالا اور دوسری جگہ دفنا دیا۔

ادھر مول راج نے اسی پنجاب کے نام پر دوبارہ فوج اکٹھی کرنا شروع کی، جس کے محنت کشوں کی فصلیں وہ لگان کی مد میں ضبط کر لیا کرتا تھا اور ادھر انگریزوں نے ڈیرہ جات کے پٹھان سرداروں، ہزارہ کے سکھ حکمرانوں اور بہاولپور کے مسلمان نوابین کے ساتھ مل کر ایک لشکر تشکیل دیا، جو پنجاب کا آخری فیصلہ سنانے والا تھا۔

شجاع آباد سے ہوتے ہوئے یہ لشکر، سورج کنڈ پہنچا تو ستمبر کا مہینہ اور 1848 کا سن تھا۔ باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوتے ہوتے تین ماہ اور گزر گئے۔ ستائیس دسمبر کو مول راج کی رہائش گاہ عام خاص پہ حملہ کیا گیا۔ انگریزوں کا توپخانہ آگ برساتا رہا اور مول راج کی فوجیں ایک ایک کر کے پیچھے ہٹتی رہیں۔

اسی دوران ایک گولہ اسلحہ خانے پہ بھی گرا جس میں پانچ ہزار من بارود جمع تھا۔ اس دھماکے سے قلعے کی مسجد اور بہاؤالدین ذکریا کے مزار کے گنبد کو بہت نقصان پہنچا۔ ان چند دنوں میں شہر پہ اتنے گولے برسائے گئے کہ کوئی دیوار خالی نہ بچی۔ ملتان کی ہر گلی، سکھ فوجیوں کی لاشوں سے اٹ گئی۔ جب کھانے پینے کو کچھ نہ بچا تو ہر فوجی کو حکم ملا کہ وہ اپنا آٹا خود گوندھے گا۔

ایک ایسی ہی شام میں مول راج کے وزیر اس کے پاس آئے اور اسے سمجھایا کہ یا تو وہ ہتھیار ڈال دے یا سب لوگوں کو زہر کھانے کا حکم دے دے۔ اگلی ہی صبح، بہترین لباس میں ملبوس مول راج اپنے عربی نسل کے گھوڑے پہ سوار قلعے کے صدر دروازے سے نکلا اور جنرل واش کے سامنے تلوار پھینک دی۔ بالآخر تاریخ نے 22 جنوری 1849 کو ملتان ، انگریزوں کے نام لکھ دیا۔

ملتان کی فتح کے بعد شکست خوردہ مول راج کو لاہور کی انگریز عدالت میں لایا گیا، جہاں اس کے خلاف مقدمہ چلا۔ عدالتی کاروائی کے دوران مول راج کے وکیل نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ جس وقت وقوعہ ہوا، ملزم ایک آزاد ریاست کا والی تھا اور انگریز قانون کی عملداری سے ماورا تھا۔

مگر قانون بادشاہوں کا ہوا کرتا ہے مجرموں کا نہیں، سو جون 1849 میں مول راج پہ قتل، اعانت قتل اور اشتعال انگیزی کے جرائم ثابت کر کے اسے موت کی سزا سنا دی گئی۔ گورنر جنرل ڈلہوزی نے مجرم کی اپیل پر موت کی سزا کالا پانی میں بدل دی، مگر سزا شروع ہونے سے پہلے ہی ملتان کا یہ آخری سکھ حکمران اگست 1850 میں بنارس میں انتقال کر گیا۔

فتح کے بعد انگریزوں نے ان دو لاشو ں کو بھی ڈھونڈ نکالا جن کے قتل کی پاداش میں ہزاروں کا خون بہا تھا اور عید گاہ کے صحن میں سولیاں لگا کر سینکڑوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ قلعہ کہنہ کے بلند مقام پہ مدفون ان افسران کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے 1864 میں ایک یادگار تعمیر کی گئی ۔ یادگار کیا ہے بس ایک خنجر ہے جو زمین میں گڑا ہے اور جس کے نچلے حصے میں ان لوگوں کے نام درج ہیں جو تاریخ کی ایک طرف غاصب تھے اور دوسری طرف شہید۔ شائد مشرق اور مغرب میں اتنا ہی فرق ہے ۔ ۔ ۔

(جاری ہے)


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen

تبصرے (0) بند ہیں