رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے اور پسماندگی کے لحاظ سے سرِ فہرست صوبہ بلوچستان میں تقریباً 23 لاکھ افراد علم کی روشنی سے محروم ہیں۔ غربت، بد امنی ، معاشی اور معاشرتی مشکلات اور متعلقہ حلقوں کی مجرمانہ خاموشی اس اہم مسئلے کی اہم وجوہ ہیں اور یوں معصوم بچے تعلیم کی نعمت سے دور ہیں۔

بلوچستان میں سیکریٹری تعلیم غلام علی بلوچ نے ڈان ویب سائٹ کو بتایا کہ صوبے میں چھتیس لاکھ بچوں میں سے صرف تیرہ لاکھ ہی اسکول جارہے ہیں اور یہ تمام صوبوں کے مقابلے میں کم ترین شرح ہے جبکہ بلوچستان صحت، نکاسی آب، صاف پانی کی فراہمی اور خواندگی جیسے دس اہم عوامل میں بھی تمام صوبوں سے پیچھے ہے۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ نے اعتراف کیا کہ بلوچستان کے بچوں کی اکثریت ان کے پیدائشی حق، تعلیم سے دور ہے۔

‘ ہم ان بچوں کو دوبارہ اسکول بھیجیں گے،’ انہوں نے کہا۔

  ‘ کئی علاقے میں اب بھی لوگ تعلیم کو غیراسلامی تصور کرتے ہیں۔ دوسری جانب بلوچ اکثریتی آبادی میں دیگر علاقوں سے تعلیمی خدمات دینے والے اساتذہ جان کے خطرے اور دھمکیوں کے پیشِ نظر وہاں سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔’

ڈاکٹر بلوچ نے کہا کہ حکومت معیاری تعلیم کی فراہمی کیلئے پر عزم ہے اور اس کیلئے حکومت نے مناسب فنڈ رکھے ہیں جبکہ بند اسکولوں کو کھولنے اور نئے اسکول قائم کررہی ہے اور یہ کام صوبے کے طول و عرض میں کیا جارہا ہے۔

‘ اگر ہم ان بچوں کو اسکول بھیجنے میں ناکام ہوگئے تو یہ تباہ کن ہوگا،’ وزیرِ اعلیٰ نے کہا۔

صوبے کے پسماندہ علاقوں میں والدین اپنے بچوں کو اسکول نہ ہونے کی صورت میں مدرسوں کو داخل کرانے پر ترجیح دیتے ہیں۔

‘ مدارس کھانا دیتے ہیں اور رہائش فراہم کرتے ہیں جبکہ عام اسکول یہ سہولت نہیں دیتے،’ معروف ماہرِ تعلیم نعمت اللہ خان نے کہا۔ اب غریب ترین علاقے کے بچے یا تو روزانہ کی اجرت پر کوئی کام کرتے ہیں یا پھر مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔

سابق آمر اور صدر پرویز مشرف کے دور میں صوبے میں تین ہزار مدارس رجسٹر کئے گئے تھے۔ صوبائی محکمہ صنعت نے بتایا کہ صوبے میں غیر رجسٹرڈ مدارس کی تعداد دس ہزار سے بھی زائد ہے۔

سال 1978 میں نور محمد تراکئی کے سرخ انقلاب کے بعد افغان جنگ نے بلوچستان میں عموماً اور خاص طور پر پشتون علاقے کے سماجی تانے بانے کو شدید متاثر کیا تھا۔

‘‘ بلوچ آبادی میں بڑھتی ہوئی بد امنی سے ان علاقوں میں اساتذہ کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے،’ خان نے کہا۔

غریب والدین کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجیں جبکہ حکومتی اسکول بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

‘ مدرسہ میرے بچوں کو اسلامی تعلیم اور تمام سہولیات فراہم کرتا ہے،’ حاجی محد یار نے کہا جو پشین میں اپنے بچے کو مدرسے میں پڑھارہے ہیں ۔

‘ حکومتی اسکولوں میں کوئی سہولت نہیں۔’ ایک نجی ٹی وی چینل میں کام کرنے والے محمود خان نے بتایا۔ قلیل ذرائع کے باوجود بھی میں نے اپنے بچے کو پرائیوٹ اسکول میں بھجوایا ہے۔

صوبے میں پرائمری اور مڈل اسکولوں کی تعداد 12600 ہے جبکہ اساتذہ کی تعداد 56000 ہے۔ تاہم سیکریٹری تعلیم نے اعتراف کیا کہ ان میں سے 2000 اسکول غیرسرگرم ہیں اور جو اساتذہ اپنی خدمات انجام نہیں دے رہے ان کی تعداد 3000 سے زائد ہے۔

وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ میں نے غیر حاضر اساتذہ کیخلاف سخت کارروائیوں کی ہدایات دی ہیں۔

تاہم دیگر آزاد ذرائع غیر حاضر استادوں کی تعداد کہیں ذیادہ بتاتے ہیں۔

بلوچستان میں آل گورنمنٹ ٹیچر تنظیم کے سربراہ نے کہا ہے کہ صوبے میں سرکاری گھوسٹ ٹیچرز کی تعداد پانچ ہزار سے بھی ذیادہ ہے جبکہ گھوسٹ اسکولوں کی تعداد 6000 سے بھی بڑھکر ہے۔

اس کے علاوہ صوبے میں جعلی ڈگریوں پر بھرتی ہونے والے اساتذہ کی تعداد بہت ذیادہ ہے۔

‘ صرف کوئٹہ شہر میں ہی 700 ٹیچرز جعلی ڈگریوں پر بھرتی ہوئے ہیں اور کام کرر ہے ہیں۔’ انہوں نے کہا۔

‘ ٹیچر تنخواہ لے رہے لیکن ڈیوٹیاں نہیں دے رہے،’ بلوچ نے اعتراف کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ صوبے میں 95 فیصد اسکول صرف ایک کمرے اور ایک ٹیچر پر مشتمل ہیں جبکہ صرف پانچ فیصد اسکولوں میں ایک سے زائد کمرے اور مناسب سہولیات موجود ہیں۔

اسکولوں کی سب سے ذیادہ تعداد پشین اور جعفرآباد میں ہے جبکہ شیرانی میں اسکول سب سے کم ہیں۔

سرکاری اسکولوں میں استاتذہ پر نظر رکھنے کا کوئی نظام نہیں جبکہ حکومتی اساتذہ کی تنخواہ بہت ذیادہ ہے۔

‘ ہر ماہ حکومت صوبے بھر کےسرکاری ٹیچرز کو دوارب روپے کی تنخواہیں دیتی ہے۔

صوبائی وزیرِ مالیات کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا۔

ہر حکومت اس پسماندہ ترین صوبے میں تعلیم کی بہتری کا دعویٰ کرتی آئی ہے تاہم زمینی حقائق اس کے برخلاف ہیں۔ اور تعلیم کے مسئلے کو حل کئے بغیر بلوچستان کے مسائل حل نہیں کئے جاسکتے ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں