ٹھہر کر سوچیے

22 نومبر 2013
فائل فوٹو۔۔۔
فائل فوٹو۔۔۔

افسوس کہ ایسا بار بار ہورہا ہے لیکن میڈیا صرف ایک آلہ ہے۔ اسے اچھے اور بُرے، دونوں طرح کے مقاصد کی خاطر استعمال کیا جاسکتا ہے مگر یہ اُن پر منحصر ہے جو اس پر دسترس رکھتے ہیں۔

گذشتہ جمعہ کو راولپنڈی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادارت کے دوران، ایک اچھی بات یہ سامنے آئی کہ واقعے کی براہِ راست کوریج اور اسے نشر کرنے سے گریز کیا گیا حالانکہ ماضی میں اس طرح کے واقعات کی لائیو کوریج افراتفری پھیلانے، شعلوں کو بھڑکانے حتیٰ کہ مزید بے چینی کی طرف لے جانے کا سبب بنتی رہی ہیں۔

لیکن شرپسند عناصر ہمیشہ اپنے لیے راہ تلاش کرہی لیتے ہیں۔ جمعہ کو مشاہدہ ہوا کہ لوگوں نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی خاطر سماجی رابطوں (سوشل نیٹ ورکنگ) کی ویب سائٹس بالخصوص ٹوئٹر اور فیس بُک کی طرف رخ کرلیا تھا۔

اگرچہ متعدد علاقوں میں موبائل فون سروس تو بند ہوسکتی تھی لیکن اس نے وائی فائی انٹرنیٹ فرینڈلی فون کو بالکل متاثر نہیں کیا تھا، لہٰذا تشدد کی تصاویر، جن میں سے کچھ حقیقی باقی ہاتھ کی صفائی کا نمونہ تھیں، تیزی سے پھیلتی رہیں، جس نے پہلے سے کشیدہ صورتِ حال کو اور بدتر کردیا۔

وہ اور پھر اس کے چند روز بعد تک، پیش آنے والے واقعات نے حکومت کی اس سمت رہنمائی کی کہ وہ سوشل میڈیا یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر تفرقہ پھیلانے اور نفریت کی تشہیر کرنے والے مواد پر پابندی لگادے۔

بعض کے لیے یہ بہت اچھا ہے۔ زیادہ تر اس سے متفق ہیں کہ اس طرح کا مواد قابلِ اعتراض ہے۔ یہاں مشکل یہ پیش ہے کہ کس طرح لگائی گئی پابندی تکنیکی طور پر موثر ثابت ہوگی اور اس کا تعین اور فیصلہ کیسے ہوگا کہ آیا کون سی رائے یا تبصرہ غلط یا جھوٹ پر مبنی ہے اور ان کے درمیان طرح ایسی حدِ فاصل کھینچی جاسکتی ہے کہ کیا قابلِ اجازت ہے اور کیا نہیں؟

ایک زیادہ مفید مشق یہ ہوسکتی ہے کہ ریاست اس تقسیم پر غور و فکر کرے جو ملک میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس کی وجہ سے لوگ، دوسرے فرقوں اور عقائد سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف روا تشدد سے صرفِ نظر برتنے لگے ہیں۔

اس معاشرے میں بہت سارے ذہن بیمار ہیں اور یہی مسئلہ ہے، جس کی خاظر ضرورت ہے کہ بین المذاہب و فرقہ موجود تنازعات پر قابو پایا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں