بے ماتم، گمنام

01 دسمبر 2013
پولیس حکام کو یقین ہے کہ رواں ہفتے کے اوائل میں، کراچی کے اندر بعض پولیس اہلکاروں کا قتل، میٹروپولیٹن میں جرائم پیشہ کے خلاف جاری آپریشن کا ردِ عمل تھا۔ فائل فوٹو
پولیس حکام کو یقین ہے کہ رواں ہفتے کے اوائل میں، کراچی کے اندر بعض پولیس اہلکاروں کا قتل، میٹروپولیٹن میں جرائم پیشہ کے خلاف جاری آپریشن کا ردِ عمل تھا۔ فائل فوٹو

کراچی اور حیدرآباد میں گذشتہ منگل کو چھ پولیس اہلکاروں کا قتل، اُس سفّاک خطرے کا ایک اور انتباہ ہے جس کا قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں سامنا ہے۔ سندھ پولیس کے لیے یہ سال خاص طور پر سنگین ثابت ہوا، جس کے دوران کراچی میں ڈیڑھ سو سے زائد پولیس والے قتل کردیے گئے۔

پولیس حکام کو یقین ہے کہ رواں ہفتے کے اوائل میں، کراچی کے اندر بعض پولیس اہلکاروں کا قتل، میٹروپولیٹن میں جرائم پیشہ کے خلاف جاری آپریشن کا ردِ عمل تھا۔

درحقیت، پولیس فورس کاحوصلہ پست اور انہیں خوفزدہ کرنے کے لیے اہلکاروں کا قتل کوئی نئی بات نہیں۔ سن اُنیّس سو نوّے کی دہائی کے کراچی آپریشن میں ڈیڑھ سو سے زائد پولیس والوں نے حصہ لیا تھا، جن کا نہایت منظم طریقے سے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران صفایا کیا جاچکا۔

خود خیبر پختون خواہ میں بھی متعدد سرگرم پولیس اہلکاروں اور افسران کو قتل کیا جاچکا ہے تاہم یہ کراچی سے اس لیے مختلف ہے کہ یہاں زیادہ تر پولیس والوں کے قتل سے متعلق یقین ہے کہ اس کے ذمہ دار منظم جرائم پیشہ گروہ یا سیاست زدہ قاتل ہیں جبکہ خیبر پختون خواہ میں زیادہ تر پولیس اہلکار عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کا نشانہ بنے تھے۔

رواں سال کے اوائلی چھ ماہ کے دوران صوبے میں پولیس اہلکاروں کو ہدف بنا کر ایک سو سے زیادہ حملے کیے گئے، جس کے باعث سندھ پولیس کے حکام نے اہلکاروں اور افسران کی فیلڈ میں بہتر حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ انہیں بُلٹ پروف جیکٹس فراہم کرنے کے علاوہ گروپ کی صورت میں گشت کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

لیکن پاکستان کی تمام صوبائی حکومتوں کے لیے، کرنے کا جو سب سے زیادہ اہم کام ہے، وہ یہ کہ اپنی اپنی پولیس فورس کی سیاسی ملکیت (پولیٹکل آنرشپ) لیں۔ حال ہی میں دیکھا گیا کہ مقتول افسران کی تعزیت کے لیے خود افسران تو پہنچے البتہ عوام اپنی جگہ سے بالکل بھی نہیں سرکی۔

مقتول پولیس اہلکاروں کے خاندان والوں کو اپنے پیارے کے واجبات اور معاوضوں کی وصولی کی خاطر بھی در در کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔

بہتر تربیت، جدید اسلحہ و آلات سمیت اگرچہ پولیس فورس میں متعدد ناکامیاں اور خامیاں موجود ہیں تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو ہماری ہمدردی اور حمایت کی بھی ضرورت ہے۔

پولیس اہلکاروں اور افسران کے قتل کی تحقیقات اور قاتلوں کو گرفتار کر کے انجام تک پہنچانے سے، فورس کے حوصلے بُلند کیے جاسکتے ہیں۔ یہ واضح کردے گا کہ ہم ایک پولیس والے کی زندگی کی بھی قدر کرتے ہیں۔

مقتول پولیس والوں کے قتل کی تحقیقات کے لیے، شاید جذبے سے سرشار ایک علیحدہ یونٹ قائم کیا جاسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں