جمیعت کے کارکنوں کا احتجاج۔ لاہور شہر مفلوج

03 دسمبر 2013
پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی جمیعت کے احتجاجی کارکنوں کے سامنے بے بس نظر آئی، جنہوں نے پورے شہر کو دس گھنٹے تک بند کیے رکھا۔ —. فوٹو آئی این پی
پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی جمیعت کے احتجاجی کارکنوں کے سامنے بے بس نظر آئی، جنہوں نے پورے شہر کو دس گھنٹے تک بند کیے رکھا۔ —. فوٹو آئی این پی
جمیعت کے کارکنوں نے مختلف مقامات پر بسوں اور ٹرکوں کو سڑکوں کے بیچوں بیچ ان کے انجن بند کرکے سڑکیں بند کردیں۔ —. فوٹو آئی این پی
جمیعت کے کارکنوں نے مختلف مقامات پر بسوں اور ٹرکوں کو سڑکوں کے بیچوں بیچ ان کے انجن بند کرکے سڑکیں بند کردیں۔ —. فوٹو آئی این پی

لاہور: کل بروز پیر دو دسمبر کو پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ اور اسلامی جمیعت طلبہ کے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی عروج پر پہنچنے کے بعد جمیعت کے کارکنوں نے پُرتشدد احتجاج کا سہارا لے کر لاہور کی اہم شاہراہوں کو کئی گھنٹے تک بند کیے رکھا، یوں ہر طرف ٹریفک جام ہوگیا، اسی کے ساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کی توڑ پھوڑ کی اور نذرِ آتش کردیا۔

پیر کی صبح پولیس نے یونیورسٹی کے ہاسٹل کو خالی کرانے کے لیے چھاپہ مارا تو یہ طالبعلم سڑکوں پر نکل آئے۔

جمیعت کے کارکنوں نے مختلف مقامات پر بسوں اور ٹرکوں کو سڑکوں کے بیچوں بیچ ان کے انجن بند کرکے سڑکیں بند کردیں۔

شام کے وقت پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس سے ملحق وحدت روڈ پر لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی ایک بس نذرآتش کردی گئی۔

پولیس نے جمیعت کے اکیس کارکنوں کو حراست میں لے لیا اور چھاپہ مار کر ایک بس نذرآتش کرنے کے الزام میں جمعیت کے دو سرگرم کارکنوں سہیل اور حافظ محمد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف رپورٹ درج کرلی۔

پولیس نے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں کے خلاف سڑکیں بلاک کرنے، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے، اساتذہ کے ساتھ تشدد اور ناشائستہ برتاؤ کرنے کے الزامات میں گیارہ مقدمات درج کرلیے۔

پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف نے پولیس اور ٹریفک انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ مٹھی بھر طالبعلموں کو روکنے میں ناکام رہی، جنہوں نے تقریباًدس گھنٹے تک شہر کو بند کیے رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اعلٰی حکام کو معطل کیا جائے اور لاء اینڈ آرڈر کو ہر قیمت پر بحال کیا جائے۔

پنجاب کے وزیرِ تعلیم رانا مشہود احمد خان نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایسے عناصر کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی، جو تعلیمی اداروں میں امن و امان کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب یونیورسٹی میں پچھلے چھ ہفتوں سے جاری صورتحال کا مشاہدہ کررہی ہے، اور آخر کار یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے میں ملؤث اہم افراد کو پکڑ کر ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔

وزیرِ تعلیم نے کہا کہ تمام طلباء تنظیمیں غیرقانونی ہیں، اور حکومت کسی کو بھی ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت نہیں دے گی۔ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ اور اسلامی جمیعت طلبہ کے کارکنوں کے درمیان ہاسٹل کی رہائش کے معاملے پر کئی مہینوں سے تنازعہ چل رہا تھا اور بعد میں خواتین طالبعلموں کے لیے اسے خالی کرنے سے انکار کردیا تھا۔

پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت کے ناظم عبدالمقیط نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ طالبعلموں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر نئے ہاسٹلوں کی تعمیر نہیں کررہی ہے اور اس کے بجائے لاء کالج کے طالبعلموں سے خواتین طالبعلموں کے لیے ہاسٹل خالی کرنے کے لیے کہا جارہا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ پولیس نے اتوار کی شام کو جمیعت کے کارکنوں کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا تھا، اور سات طالبعلموں کو لاء کالج کے دو استادوں کو دو دن سے حبس بے جا میں رکھنے اور ہراساں کرنے کےجرم میں نامزد کیا تھا۔ ان پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پولیس نے ہاسٹل نمبر سولہ پر تقریباً پونے سات بجے چھاپہ مارا اور اس کو خالی کروا کر یونیورسٹی انتظامیہ کے حوالے کردیا۔ لیکن طلباء نے ہاسٹل پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ پولیس نے چودہ طالبعلموں کو حراست میں لے لیا۔

بعد میں ان تمام سات ملزمان کو جنہیں شہر کے مختلف مقامات کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں سے گرفتار کیا گیا تھا، لاء کالج کے استاد کی ایف آئی آر میں نامزد کردیا گیا۔

اسلامی جمیعت طلباء سرگرم کارکنوں نے اس گرفتاریوں کے خلاف احتجاج شروع کیا جو شہر کے مختلف علاقوں میں پھیلتا گیا، جس پر پولیس قابو نہیں پاسکی۔جمیعت کے کارکنوں نے گاڑیوں کی چابیاں چھین کر بسوں اور ٹرکوں کو سڑک کے بیچ میں کھڑا کردیا، یوں بڑے پیمانے پر شہر جام ہوگیا۔

احتجاجیوں نے وحدت روڈ پر ایک بس کو بھی نذرِ آتش کیا۔

جمیعت کے ناظم نے کہا کہ طالبعلموں کی ہاسٹل میں رہائش کے اندرونی معاملے کے بارے میں یونیورسٹی انتظامیہ نے حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا تھا۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ طالبعلموں کی بڑی تعداد لاپتہ ہوگئی تھی، اور ان کے والدین مختلف پولیس اسٹیشن میں جاکر انہیں تلاش کررہے تھے، لیکن ان کی کوشش رائیگاں رہی۔

انہوں نے کہا کہ جمیعت اپنا یہ احتجاج جاری رکھے گی اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور صوبائی وزیرِ تعلیم کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے ذمہ دار ہوں گے۔

بعد میں پنجاب یونیورسٹی ہال کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمود اختر نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ہاسٹل نمبر سولہ میں مقیم طالبعلموں کو نوٹس جاری کیے گئے تھے کہ وہ ہاسٹل کو خواتین طالبعلموں کی رہائش کے لیے خالی کردیں۔ تاحال لڑکیاں برآمدوں اور کامن روم کو سونے کے لیے استعمال کررہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب لڑکوں کے ہاسٹل میں طالبعلموں کے رہنے کے لیے گنجائش موجود ہے۔

پروفیسر محمود اختر نے بتایا کہ ہاسٹل کی تلاشی کے دوران شراب کی تین بوتلیں، ممنوعہ اشیاء، ایک گولی اور کارڈز جمیعت کے ناظم کے کمرے سے برآمد ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی نے ہاسٹل نمبر سولہ میں اب ڈیڑھ سو خواتین طالبعلموں کو منتقل کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے وہ طالبعلم جن پر مقدمہ درج کیا گیا ہے، ان کے خلاف ڈسپلن کمیٹی کی طرف سے کارروائی کی جائے گی اور ان کو نکال دیا جائے گا۔

ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار نے کہا کہ جمیعت کے اکیس کارکنوں کو گرفتار کیا ہے، اور مزید گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں، ان میں سے دو ملزموں کا تعلق لاہور سے ہے اور باقی سیالکوٹ، نارووال اور سرگودھا سے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس مختلف الزامات کے تحت انسدادِ دہشت گردی ایکٹ سمیت گیارہ مقدمات درج کیے ہیں۔

ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار نے کہا کہ پولیس نے پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس اور ہاسٹل کے علاقے کے درمیان سے گزرنے والے کینال روڈ پر اپنے گشت میں اضافہ کردیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں