عالمی تجارت کا تاریخی معاہدہ طے پا گیا

07 دسمبر 2013
سات دسمبر دوہزار تیرہ کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹو ازویڈو انڈونیشیا میں ڈبلیوٹی او کی نویں عالمی کانفرنس کے بعد  عالمی معاہدہ منظور ہونے پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ رائٹرز تصویر
سات دسمبر دوہزار تیرہ کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹو ازویڈو انڈونیشیا میں ڈبلیوٹی او کی نویں عالمی کانفرنس کے بعد عالمی معاہدہ منظور ہونے پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ رائٹرز تصویر

نوسا ڈوا، انڈونیشا: وزرائے تجارت نے کئی روز کی بحث کے بعد ہفتے کو عالمی تجارتی تنظیم ( ڈبلیوٹی او) کے تحت پہلا معاہدہ کیا ہے جسے تجارت کا ایک ' تاریخی معاہدہ' کہا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ عالمی تجارت میں حائل کئی مشکلات کو دور کرنے کیلئے ڈبلیو ٹی او کی جانب سے ایسے معاہدے کا خیال اب سے بارہ سال قبل دوحہ میں پیش کیا گیا تھا۔

ڈبلیوٹی او کے دفاتر جنیوا میں ہیں اور 1995 کے بعد یہ اس کی پہلی کامیابی ہے، جس کے تحت پسماندہ اور غریب ممالک کو تجارت کے فروغ میں سہولیات حاصل ہوں گی۔

' پہلی مرتبہ ڈبلیو ٹی او کو حقیقی معنوں میں متعارف کرایا جارہا ہے،' بظاہر تھکے ہوئے لیکن پرجوش ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹر جنرل روبرٹو ازویڈوہ نے اختتامی تقریب میں کہا۔

معاہدے کے تحت کسٹم قوانین کو سادہ بنایا جائے گا۔

دوسری جانب واشنگٹن میں واقع پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کا اندازہ ہے کہ اگر ڈبلیوٹی اوکے اس عالمی معاہدے پر درست انداز میں عمل درآمد کرایا جائے تو اس سے ایک ٹریلین ( دس کھرب) ڈالر اور 21 ملین ( دوکروڑ دس لاکھ) نئ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

تاہم خود ڈبلیو ٹی او کے ماہرین ایک طرح کی غیر یقینی میں مبتلا ہیں کہ ان قوانین پر عمل کیسے ہوگا، خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں۔

یہ معاہدہ بالی میں چار روزہ بحث اور طویل مذاکرات کے بعد ہی ممکن ہوسکا ہے جس میں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے مسائل سامنے آئے ہیں۔

انڈونیشیا میں کانفرنس کی صدارت کرنے والی گیتا ویرجوان نے اس معاہدے کو تاریخی قرار دیا ہے اور کہا کہ ڈبلیو ٹی او جلد ہی دوحہ کانفرنس کیلئے ' روڈ میپ' وضع کرے گی۔

واضح رہے کہ دوہزار ایک میں دوحہ کانفرنس میں امیر اور غریب ممالک کے درمیان تجارت کو شفاف بنانے کیلئے کئی سفارشات دی گئی تھیں جن کے تحت ایک فریم ورک بنانا تھا۔

بالی میں ہونے والے مذاکرات میں کئ مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ بات چیت ناکام ہوجائے گی اور مذاکرات ختم ہوجائیں گے۔

انڈیا، امریکہ اور کیوبا کی جانب سے کئی اعتراضات سامنے آئے اور کیوبا پر امریکی معاشی پابندیوں کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔

دوسری جانب بارہ ممالک کی جانب سے ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ ( ٹی پی پی ) کی کانفرنس ہفتے سے سنگاپور میں شروع ہورہی ہے جس میں یہ ممالک اپنا تجارتی اتحاد بھی وضع کریں گے۔ اس اتحاد کا سربراہ امریکہ ہے۔

ازویڈو نے ایسے تجارتی اتحاد ( ٹی ٹی پی) پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے اثرات غریب ممالک پر مرتب ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں