پڑھے لکھے بھکاری

04 مارچ 2014
اگر شہروں میں غربت اور بیروزگاری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی کام نہیں ملتا تو ایسی صورت میں مسقبل ہمارے لئے ایک لمحہ فکر ہے-
اگر شہروں میں غربت اور بیروزگاری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی کام نہیں ملتا تو ایسی صورت میں مسقبل ہمارے لئے ایک لمحہ فکر ہے-

افسوس کی بات ہے لیکن ہم اپنے اس ملک میں اس بات کے عادی ہوچکے ہیں کہ لوگ یا تو پیسے مانگتے ہیں یا پھر کہتے ہیں کہ کسی اور طرح ہماری مدد کیجیئے- اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی لحاظ سے بڑا ہی برا وقت ہے، غربت بڑھ رہی ہے، ملازمتیں ملتی نہیں ہیں؛ اور اگر آبادی میں اضافہ کی رفتار کا مقابلہ تعلیم کی شرح یا پیشہ ورانہ تربیت کی شرح سے کیا جائے تو مایوس کن تصویر نظر آتی ہے، اور اس پر حیرت بھی نہیں ہوتی-

تب بھی، حیرت ہوتی رہتی ہے- حال ہی کی بات ہے، کراچی میں پھلوں کی ایک دوکان پر ایک بڑے میاں جو شائد ساٹھ برس سے کچھ اوپر ہی ہونگے میرے پاس آئے-

انھوں نے صاف ستھری شلوار قمیض اور سوئٹر پہن رکھا تھا، ترشی ہوئی سفید ڈاڑھی تھی، انھوں نے مجھ سے انگریزی میں کہا: "بیٹی میں بھیک نہیں مانگتا اور میرا گزارہ بھیک پر نہیں ہے- لیکن میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور اب میرے پاس کوئی ملازمت بھی نہیں ہے- مجھے ذیابیطس ہے اور میں انسولین لیتا ہوں- مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آرہی ہے، لیکن اگر آپ میری کچھ مدد کرسکیں تو میں آپ کا احسانمند رہونگا-"

جب میں نے ان سے چند سوالات کئے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ کسی گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر تھے اور اگرچہ انھوں نے تھوڑی سی رقم نیشنل سیونگز اسکیم میں رکھی ہوئی ہے لیکن اتنی نہیں کہ اس میں گزارہ ہوسکے، خاص طور پر جبکہ ان کی صحت بھی اچھی نہیں ہے-

انھون نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ان کا علاج ایک پرائیویٹ اسپتال میں ہورہا ہے کیونکہ اگر چہ سرکاری اسپتالوں میں علاج سستا ہوتا ہے، لیکن قطاریں لمبی لمبی ہوتی ہیں اور دوسرے ڈاکٹروں کو دیکھ کر بھی یہ نہیں لگتا کہ انھیں مریضوں کی پرواہ ہے-انھون نے مجھے بتایا ان کے تین بچے ہیں، بیٹی پاکستان کے کسی اور شہر میں رہتی ہے اور دو بیٹے یونان میں ہیں-

بیٹے مجھے پیسے بھیجا کرتے تھے لیکن جب سے مغرب میں تارکین وطن کے خلاف کارروائیا شروع ہوئی ہیں، ان کے کہنے کے مطابق، ان کے بیٹے بھی مشکلات کا شکار ہیں-

انھوں نے بتایا کہ وہ قریب ہی ایک کمرشیل علاقے میں ایک کمرے کے کرائے کے اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں اور یہ کہ اپنی عمر کی وجہ سے وہ سامان اٹھانے کا کام بھی نہیں کرسکتے- میرے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ ان کی باتوں میں کتنی سچائی ہے-میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ ہماری یہ بیس منٹ کی بات چیت انگریزی میں ہوئی، اور ان کے لحاظ سے معیاربھی ٹھیک ٹھاک تھا- انھوں نے اپنا پتہ لکھا اور لکھائی بھی اچھی ہی تھی-

پاکستانیوں کے لئے یہ عام سی بات ہوگئی ہے، خاص طور پران لوگوں کے لئے جو نسبتاً خوشحال ہیں، وہ بھیک کی لعنت کی شکایت کرتے رہتے ہیں اور یہ کہ بھیک مانگنے کے لئے کیسے کیسے قصے گھڑے جاتے ہیں- بہر حال ہم جانتے ہیں کہ شہروں میں بھکاریوں کے منظم گروہ ہیں جو نہ صرف لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں بلکہ اغوا بھی کرتے ہیں اور چھوٹے بچوں کے ہاتھ پیر بھی توڑ دیتے ہیں تاکہ لوگ ان پر ترس کھائیں-

چند سال پہلے اس خبر نے لاہور میں دھوم مچا دی تھی کہ، اس زمانے میں پولیس کے بیان کے مطابق، وہاں کے ایک گینگ نے ایک میک- اپ آرٹسٹ کو ملازم رکھا تھا جو بھکاریوں پر گہرے زخموں کا میک-اپ کرکے پیسہ کمایا کرتا تھا-

کچھ ہی دنوں پہلے کی بات ہے کہ کراچی کی ایک سڑک پر ڈرائیونگ کے دوران میں نے ایک نوجوان کو سڑک کے کنارے بیٹھا دیکھا- اس کا سر گھٹنوں پر رکھا تھا اور وہ بیچارگی کی تصویر تھا؛ اسکی وجہ بھی تھی کیونکہ اس کا ٹھیلا اس کے قریب ہی الٹا پڑا تھا، اور بُھنے چنے سڑک پر بکھرے پڑے تھے-

صاف ظاہر تھا کہ کسی حادثہ کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے وہ اپنی اس دن کی کمائی سے محروم ہوگیا تھا- یہ منظر دل توڑنے والا تھا-----اگر میں نے اپنی ایک گھنٹہ کی ڈرائیونگ کے دوران تین آدمیوں کو بالکل اسی طرح مختلف سڑکوں پر بیٹھے نہ دیکھا ہوتا- اگر اس بات پر یقین کرنا مشکل ہو کہ کسی پاگل ڈرائیور نے ٹھیلوں کو الٹنا اپنا شغل بنا لیا ہے تو اسکی دوسری وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ یہ ایک عمدہ سوچا سمجھا ڈرامہ ہے-

جو کچھ بھی ہو، کراچی لاہور اور اسلام آباد میں اب عام طور پر ایسے بچے اور نوجوان نظر آتے ہیں جو آپ سے انگریزی میں بات کرینگے اور آپ سے بھیک مانگیں گے یا پھر کوئی چھوٹی موٹی سی چیز بیچنا چاہینگے اور بہانہ یہ ہوگا کہ انھیں اپنی اسکول یا کالج کی فیس دینا ہے-

کئی موقعوں پر میں نے ان سے کہا کہ وہ اپنا پتہ یا اپنے اسکول، کالج کا پتہ لکھیں۔ کیونکہ میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ انہوں نے وہاں پڑھا بھی ہے یا نہیں- زیادہ تر موقعوں پر، یہ صحیح تھا-

بھیک کے ڈراموں کو چھوڑ کر، جس حد تک بھی یہ صحیح ہوں، میں یہ دیکھ کر حیران ہوجاتی ہوں کہ کیا پاکستان اب اس موڑ پر پہنچ چکا ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان بھی روزی نہیں کما سکتے- اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ ملک میں شرح خواندگی کیا ہے، اگر کوئی شخص تھوڑا سا بھی تعلیم یافتہ ہو تو وہ ملازمت حاصل کرنے کے میدان میں دوسروں سے بہت آگے ہوگا----یا کم از کم ہونا چاہیئے- لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میرا واسطہ تعلیم یافتہ بھکاریوں سے ہورہا ہے-

اس حد تک مایوس ہونا بھی مشکل ہے کہ شہروں میں رہنے والے لوگ ملازمت ڈھونڈنے کے بجائے بھیک مانگنے کی بدنامی مول لینے کے لئے تیار ہوجائنگے- اگر شہروں میں غربت اور بیروزگاری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی کام نہیں ملتا تو ایسی صورت میں مسقبل ہمارے لئے ایک لمحہ فکر ہے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں