برابری کہاں ہے؟

27 فروری 2014
پاکستان میں جنس، نسل، اور فرقے کی بنیاد پر امتیازات کی دیواریں تو پہلے ہی بہت اونچی ہیں لیکن اب اس میں غربت کا عنصر بھی شامل ہوچکا ہے۔ فائل تصویر
پاکستان میں جنس، نسل، اور فرقے کی بنیاد پر امتیازات کی دیواریں تو پہلے ہی بہت اونچی ہیں لیکن اب اس میں غربت کا عنصر بھی شامل ہوچکا ہے۔ فائل تصویر

اسلام آباد کی ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ کی مرکزی لفٹ کے ساتھ یہ ہدایت آویزاں ہے کہ اپارٹمنٹ کے گھریلو ملازمین، مرکزی لفٹ نہیں بلکہ سیڑھیاں یا پچھلی لفٹ استعمال کریں- اسی طرح لاہور میں واقع ایک کلب کی بیکری میں گھریلو ملازمین کا داخلہ ممنوع ہے-

لبرٹی مارکیٹ، لاہور میں واقع ایک بڑا ڈیپارٹمنٹل اسٹور متمول نظر آنے والے گاہکوں کا تو خیرمقدم کرتا ہے لیکن وہ گاہک جو دیکھنے میں ڈرائیور، گھریلو ملازمین یا غریب گھرانے سے رکھتے ہیں ان سے شناختی کارڈ نمبر مانگا جاتا ہے اور بعض ایسے افراد تو جبتک ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں موجود رہیں تب تک کے لئے انکا شناختی کارڈ تک رکھ لیا جاتا ہے- ایک دوست نے بتایا کہ انکے سامنے دو غریب بچیاں جب اسٹور میں بسکٹ خریدنے کی غرض سے گئیں تو وہاں کے سٹاف نے انہیں باہر نکال دیا-

ہم ایسے نسلی امتیاز کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں جب ہم خود یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تمام افراد مساوی ہیں- کیا پیسہ ہمارے یہاں امتیازی سلوک کی کسوٹی ہے؟

اور یہ بھی جان لیں کہ ایسی جگہوں پر اس طرح کا برتاؤ انتظامیہ خود اپنی مرضی سے نہیں کرتی- اس کے لئے ضرور انکے گاہکوں نے اصرار کیا ہوگا کیونکہ انہیں یہ پسند نہیں کہ کلب یا دکان کا ماحول متاثر ہو یا انکی لفٹ گھریلو ملازمین کی موجودگی سے آلودہ ہو- کیا غریبوں کے پاس سے بو آتی ہے؟ کیا امیر اپنے قریب کسی غریب کو پا کر بے آرام ہو جاتے ہیں؟

حال ہی میں ہماری سوسائٹی کا ایک سیکشن، اسلام آباد میں ایک ریسٹورانٹ کے گستاخ مالک کے خلاف کمر بستہ ہوگیا جس نے پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والوں کے لئے ہوٹل میں داخلہ ممنوع کر دیا تھا- اس معاملے کی قانونی اور اخلاقی نوعیت پر خاطر خواہ بحث تو نہیں مگر تھوڑی آواز ضرور اٹھائی گئی-

یہ بحث بھی کی گئی کہ آیا ریسٹورانٹ کے مالک کے پاس درست لائسنس ہے یا نہیں- مالک پر اور آخر میں اسلام آباد کی انتظامیہ پر خاطر خواہ سماجی دباؤ ڈالا گیا-

وہ معاملہ تو حل ہوگیا- لیکن غریبوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف ہم کوئی احتجاج ہوتا نہیں دیکھتے- دونوں کیسز کے درمیان واضح فرق کلاس کا ہے جس کے خلاف امتیازی سلوک کیا گیا- بنیادی آئیڈیا تو یہی ہے کہ تمام مساوی ہیں، لیکن ان میں سے بعض دیگر سے زیادہ مساوی ہیں-

غرور کی بدترین شکل خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا یا محسوس کرنا ہے- اور دوسروں کو خود سے کمتر یا چھوٹا ظاہر کرنے کی خواہش اس غرور کی بدترین مثال ہے- تکبر کی یہ اشکال اور انکی مثالیں ہماری سوسائٹی میں آپ کو عام ملیں گی-

ہم نمود و نمائش میں فخر محسوس کرتے ہیں، اور جتنا زیادہ فرق ہمارے اور دوسروں کے درمیاں نمایاں ہو اتنا ہی بہتر ہے-

پاکستان میں نسل، مذہب، جنس وغیرہ کی بنیاد پر بھی تقسیم موجود ہیں- لیکن غربت کی بنیاد پر یہ تقسیم بہت شدید ہے اور اس پر اعتراض بھی کم کیا جاتا ہے- اس امتیازی سلوک سے غریبوں کا استحصال ہوتا ہے- ان کی طرف سے کون بولے گا؟ یا اگر وہ اپنے لئے آواز اٹھاتے ہیں تو اسے سننے والا کون ہے؟

گزشتہ دنوں مجھے اسلام آباد کی ایک مشہور بک شاپ جانے کا اتفاق ہوا- میں نے اپنی کار دکان کے سامنے پارک کی اور اندر جانے ہی والا تھا ایک نوجوان میرے پاس آیا اور پوچھا کیا آپ کی کار کو صفائی کی ضرورت ہے-

میں نے اسے کار صاف کرنے کی اجازت دیدی- اسی دوران میں نے دیکھا کہ دکان کا گارڈ لڑکے کے پاس گیا اور اسے دکان کے سامنے پارک کی ہوئی کار صاف کرنے سے منع کرنے لگا- میں نے اس سے وجہ پوچھی-

اس نے بتایا کہ دکان کے مینیجر یا مالک کا حکم ہے کہ دکان کے سامنے پارک کی ہوئی گاڑیوں کی صفائی نہ کرنے دی جاۓ- میں نے دریافت کیا کہ آیا اس کے پاس کپیٹل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی کا حکم نامہ ہے- اس نے جواب دیا نہیں، لیکن اسے مالک کی ہدایت پر عمل کرنا ہوگا-

میں نے لڑکے کو صفائی جاری رکھنے کو کہا اور خود دکان کے اندر چلا گیا- اندر جا کر کاؤنٹر کے پیچھے موجود شخص سے میں نے پوچھا کیا اس کے پاس سی ڈی اے کا حکم نامہ ہے جس کی بنیاد پر وہ باہر موجود لڑکے کو کار صفائی کے ذریعہ کچھ پیسے کمانے سے روک سکے-

ان کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی نہیں تھی- میں نے اس شخص کو اپنی بدمعاشی ختم کرنے کو کہا- پیچھے بیٹھا دکان کا مالک آگے آیا اور مجھے بدتمیز کہنے لگا-

اس صورتحال میں مزید کچھ کہنا بیکار تھا لہٰذا میں دکان سے باہر آگیا- دکان اپنے ایک کسٹمر سے محروم ہو گئی اور میرے دل سے اس بک سیلر کی عزت ختم ہوگی- اس دکان یا اس کے مالک کو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ ایک مشہور دکان ہے اور اس پر ایک گاہک کے نقصان سے کوئی فرق نہیں پڑتا-

لیکن مجھے یقین ہے کہ دکان والے اسی طرح باہر غریب نوجوانوں کو ہراس کرتے رہیں گے اور انہیں گاڑیوں کی صفائی سے چند سو روپے کمانے سے روکتے رہیں گے-

دکان کے باہر، لڑکوں کو گاڑیاں صاف کرنے سے روکنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ کار کی صفائی میں پندرہ سے بیس منٹ اضافی لگ جائیں گے، اور دکان کے مالک کو جگہ خالی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ کاریں وہاں پارک ہوسکیں- لیکن اس مقصد کے لئے غریبوں کو گاڑیوں کی صفائی کے ذریعہ تھوڑی کمائی کر لینے سے روکنا، اور اس کے لئے غیر قانونی ذارئع استعمال کرنا دکان داروں کے لئے کوئی مسئلہ نہیں-

اب وقت آ گیا ہے کہ اس مسئلہ پر منظم ہوکر اقدامات کیے جائیں- ہم نے اس ملک میں غریبوں کے خلاف رائج امتیازی سلوک کے نظام کو دیکھنا یا اس پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے-

یہ اخلاقی اور قانونی دونوں طور پر گھناؤنا اور خلاف ضمیر برتاؤ ہے- لیکن اس کے خلاف ہمیں کوئی آواز اٹھتی نظر نہیں آتی- اس کے خلاف کسی قسم کے غصّے یا نفرت کا اظہار بھی ہوتا دکھائی نہیں دیت اور یہ سب سے زیادہ تشویشناک ہےا-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں