تین سوبیالیس نشستیں۔ ایک درجن اراکین کی حاضری

06 مارچ 2014
قومی اسمبلی میں قومی سلامتی پالیسی اور ملک میں جاری دہشت گردی کے حملوں پر بحث کے لیے اراکین موجود نہیں تھے۔ —. فائل فوٹو
قومی اسمبلی میں قومی سلامتی پالیسی اور ملک میں جاری دہشت گردی کے حملوں پر بحث کے لیے اراکین موجود نہیں تھے۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: اسلام آباد کے بدترین دہشت گردانہ حملے کے دودن کے بعد بدھ کے روز قومی اسمبلی میں اچھے وقت کی آرزو کے بارے میں تو طویل بات چیت ہوئی، لیکن حفاظتی تدابیر کی کمی یا اُن لغزشوں کے اعترافات بہت مختصر بات کی گئی، جن کی وجہ سے تقریباً چالیس منٹ تک دارالحکومت کے مرکزی حصے میں اس کے ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس میں ہلاکتوں کی اجازت مل گئی تھی۔

کم حاضری اور حکومت کی جانب فخریہ طور پر پیش کی جانے والی داخلی سلامتی کی نئی پالیسی پر بحث کے آغاز میں ایوان میں غیرسنجیدگی پر شدید شکایت ایک ایک اہم حکومتی اتحادی کی جانب سے سامنے آئی۔ پختونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ کوئی بھی سننے والا نہیں ہے، کہ کون کیابات کررہا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ صدر ممنون حسین دس دن طویل بحث کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کریں۔

ایسا لگ رہا تھا کہ محمود خان اچکزئی اپنے جوش خطابت کے ذریعے اراکین کی توجہ اپنی جانب کروالی ہے، انہوں نے کچھ جرأت مندانہ مقاصد کی نشاندہی کی، انہوں نے پاکستان کے آئین کے دفاع کے لیے قانون سازوں اور اتحادیوں کو نیا سیاسی ہدف دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف افغانستان کے ساتھ قریبی تعاون کیا جائے، اور علاقائی امن کےلیے ہندوستان اور چین کے ساتھ ممکنہ طور پر اختلافات کو کم کیا جائے۔

لیکن ان کی رائے کو حکومتی اور حزبِ اختلاف کی بینچوں سے بہت کم حمایت مل سکی، سوائے ایک تائید کے جو پچھلی نشست پر بیٹھے حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے رکن اسمبلی معین وٹو نے ان کے مطالبے پر کی تھی۔

یہاں تک کہ اس دن کے اہم مقررحزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت پیپلزپارٹی کے عبدالستار بچانی نے بھی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ کی تجویز کو رد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ایوان یہ قرارداد منظور کرچکے ہیں کہ مستقبل میں آئین کی کسی بھی طرح کی خلاف ورزی ہمیں پاکستان کی سڑکوں پر لے جائے گی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اراکین اسمبلی حلف اُٹھانے کے بعد پابند ہوجاتے ہیں کہ وہ آئین کا دفاع کریں گے۔لیکن ماضی میں جب بھی کبھی کسی فوجی ڈکٹیٹر نے اقتدار پر قبضہ کیا، زیادہ تر اپنے گھروں میں ہی سوتے رہے اور بہت سوں نے اس کی حکومت میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

محمود خان اچکزئی نے تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ پانچ سالہ مدتِ اقتدار میں وہ وزیراعظم نواز شریف کی حمایت کریں تاکہ وہ دہشت گردی کا خاتمہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقصد صرف اسی صورت میں ہی حاصل ہوسکتا ہے، جب کہ پاکستان اور افغانستان خلوص نیت کے ساتھ اس بات کا عزم کریں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے معاملات تمام پڑوسی ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اقوامِ متحدہ ایسے اقدام کی حمایت کرے گا، اور انہوں نے پیشن گورئی کی کہ اگر نواز شریف اور افغان صدر حامد کرزئی ایک ساتھ بیٹھ جائیں تو وہ ہندوستان اور چین کے درمیان موجود دراڑ کو بھی پاٹ سکتے ہیں اور یہاں تک کہ اس معاملے میں جاپان بھی مدد کے لیے شامل ہوجائے گا۔

محمود خان اچکزئی نے اپنی تقریر کی ابتداء میں اراکین اسمبلی کی غیرسنجیدگی کی شکایت کی تھی، جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے نبیل احمد گبول نے کچھ دیر بعد اسپیکر سے کہا کہ وہ اب تقریر نہیں کریں گے اس لیے کہ تین سو بیالیس نشستوں کے ایوان میں اس وقت ایک وفاقی وزیر اور دو وزیرِ مملکت کے بشمول تقریباً ایک درجن اراکین ہی موجود ہیں۔

وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان، چھبیس فروری کو جنہوں نے نئی سیکیورٹی پالیسی کا اعلان کیا تھا، بدھ کے اجلاس میں موجود نہیں تھے، شاید اس لیے کہ وہ حکومتی ٹیم اور طالبان عسکریت پسندوں کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے اکوڑہ خٹک میں موجود تھے۔ان کی غیرموجودگی سے بہت سے قانون ساز شاکی نظر آئے، خاص طور پر جو پیر کے روز کے واقعے کی ان سے وضاحت چاہتے تھے۔ پیر کو اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ پر فائرنگ اور خود کش بم حملے میں ایک ایڈیشنل اینڈ سیشن جج، کچھ وکلاء سمیت گیارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے اور انتیس افراد زخمی ہوئے تھے۔

اگرچہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے سے اپنی لاتعلقی ظاہر کی ہے، جو ٹی ٹی پی کی جانب سے دو ماہ کی جنگ بندی کے اعلان کے محض دو دن بعد ہی رونما ہوا تھا۔ اراکین اسمبلی نے گزشتہ سالوں میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو دیکھتے ہوئے عسکریت پسندوں کی خلوص نیت کے بارے میں سوالات کھڑے کیے۔ ایم کیو ایم کے سلمان بلوچ نے شبہ ظاہر کیا کہ جنگ بندی کے باوجود ہلاکت خیز حملے جاری رکھنے کے لیے طالبان کی ایک نئی حکمت عملی سامنے آئی ہے، کہ وہ ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے۔

پیپلزپارٹی کے عبدالستار بچانی نے بھی ٹی ٹی پی کے خلوص پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ڈوریں کہیں اور سے کھینچی جارہی ہیں۔ انہوں نے حوالہ دیا کہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی سعودی دورے سے واپسی کے بعد مذاکرات کا نیا دور شروع ہوگیا ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی رکن شیرین مزاری نے انسدادِ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تین جہتی نکتہ نظر کی تجویز پیش کی۔ جو تشدد ترک کرنے پر آمادہ ہوں ان کو علیحدہ کیا جائے۔ جو لڑائی جاری رکھنے پر اصرار کریں ان کو الگ تھلگ کردیا جائے اور اس کے بعد ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انتہاء پسندوں کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جائے اور مذہبی مدرسوں کے نصاب پر نظرِ ثانی کی جائے۔

پنجاب سے مسلم لیگ نون کے رکن اسمبلی ریٹائرڈ میجر طاہر اقبال نے بھی دہشت گردوں کی نفسیاتی اور نظریاتی جنگ کے خلاف جوابی اقدامات پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو آئین کی اطاعت سے انکار کریں ان کو الگ تھلگ کردیا جائے۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت اسلامی کے دو اراکین صاحبزادہ طارق اللہ اور عائشہ سید نے حکومتی بینچوں پر بیٹھے ہوئے اراکین کے لیے گرمجوشی کا اظہار کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کی کہ انہوں نے سو صفحات پر مشتمل سیکیورٹی پالیسی تیار کی۔ اس کے علاوہ دونوں اراکین نے طالبان کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کی حمایت کی۔یاد رہے کہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے سربراہ اور سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم بھی شامل ہیں۔

حزبِ اختلاف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما اور پیپلزپارٹی کی زیرِ قیادت سابقہ حکومت میں ریلویز کے وزیر حاجی غلام احمد بلور نے بھی چوہدری نثار کے بیان کی تعریف کی جبکہ وہ سیکیورٹی پالیسی کا ایوان میں اعلان کرررہے تھے، فوج ایک عسکریت پسند گروپ کے ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنارہی تھی۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ان کی پارٹی نے گزشتہ صوبائی حکومت کی سربراہی کی تھی، لیکن گیارہ مئی کے عام انتخابات میں ان سے یہ چھین لی گئی، انہوں نے کہا کہ صوبے میں دہشت گردی سے لڑتے ہوئے ان کی قربانیوں کے باوجود نامعلوم قوتوں نے انہیں تحت الثّریٰ میں پھینک دیا۔

جمشید دستی کو پڑی ڈانٹ:

پنجاب سے ایک آزاد رکن جمشید دستی کو اس وقت اسپیکر سردار ایاز صادق نے کارروائی میں دخل دینے پر ڈانٹ دیا، جب وہ سات رکنی ایک خصوصی کمیٹی کے حوالے سے اپنے عدم اعتماد کا اظہار کرنا چاہتے تھے، ایوان نے اس کمیٹی کی منظوری منگل کے روز دی تھی، جس نے پارلیمنٹ لاجز میں اراکین اسمبلی پر غیر اخلاقی سرگرمیوں کے الزامات کی تحقیق کرنی تھی۔

اسپیکر نے جمشید دستی سے کہا کہ بجائے اس کے کہ وہ پورے ایوان کو اپنی خواہش پر یرغمال بنائیں، انہیں اگر کوئی شکایت ہے تو وہ تحریری طور پر اس کمیٹی کو پیش کردیں۔

کمیٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کثیر جماعتی کمیٹی ایک کمیٹی روم میں اپنا اجلاس منعقد کررہی تھی، جہاں جمشید دستی کو داخلے کی اجازت نہیں تھی، لیکن انہوں نے کمیٹی کے کچھ اراکین سے بات کی تھی جب وہ ایوان واپس آرہے تھے۔

کمیٹی کی جانب سے جاری کیے گئے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو منعقد ہوگا، جس میں جمشید دستی کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں