ڈاکٹر اور فرشتہ

16 مارچ 2014
ہندو ذات پات کا سسٹم اور اس کے اندر جڑی ہوئی لازمی نسلی عصبیت ایک جدید قومی ریاست کے مقاصد کے منافی ہے۔فائل فوٹو۔۔۔
ہندو ذات پات کا سسٹم اور اس کے اندر جڑی ہوئی لازمی نسلی عصبیت ایک جدید قومی ریاست کے مقاصد کے منافی ہے۔فائل فوٹو۔۔۔

ہندوستان کے جوشیلے دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو بمشکل ہمارے تاریخی شعور میں جگہ ملتی ہے، کیونکہ تحریک آزادی کے حوالے سے جتنے بحث ومباحث ہوتے ہیں ان سے انکو خارج کردیا گیا ہے- حالانکہ ان کو ہندوستانی آئین کے حوالے سے ایک بہت مقتدر مقام (بابائے ہندوستانی آئین) پر فایز کیا گیا ہے-

امبیڈکر کو ہندوستان اور پاکستان کے بارے میں جتنے مذاکرے ہوتے ہیں ان میں بھی شامل نہیں کیا جاتا ، اگرچہ کہ انہوں نے بٹوارہ ہونے تک اس موضوع پر سب سے زیادہ متوازن تبصرے اور مضامین لکھے- مہاتما گاندھی کے ساتھ ان کی تلخ و ترش جنگوں کی تفصیل، جو ہندوستان کے لاکھوں کڑوڑوں اچھوتوں کے لئے سماجی انصاف کے حصول کے لئے وہ لڑتے رہے تھے اور جو کانگریس پارٹی کی سیاسی جدوجہد سے باہر تھے، ان کے دلت حمایتیوں کیلئے آج بھی بہت بڑا اثاثہ ہیں اور اس موضوع پر ریسرچ کا ایک خزانہ ہیں-

میرا یقین ہے کہ ان کو ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہوں میں قومی دھارے کے بحث مباحث سے اس طرح الگ تھلگ کر دینے کی تفصیلی وضاحت ہندو مسلم علماء کی اونچی ذات کی عینک میں ہے جس سے وہ اپنی نوآبادیاتی دور کی تاریخ کو دیکھتے تھے- ہم ایک ایسی آزادانہ گفتگو کی مثال یہاں پر دینا چاہتے ہیں جو ہندو-مسلم دونوں ذاتوں کے درمیان ہوئی تھیں، اور اس میں کس طرح دلت مسئلے کو دفن کرنے کی کوشش کی گئی تھی-

1858ء میں، اودھ کی ملکہ، بیگم حضرت محل، نے اپنی رعایا سے اپیل کی کہ وہ ملکہ الزبتھ کے برطانوی حکومت کے تحت غدر کے بعد سہولتوں کے وعدوں کے دھوکہ میں ہرگز نہ آئیں- حضرت محل کا دعویٰ تھا، جیسا کہ لبرل لوگ آج بھی کہتے ہیں، کہ ان کی نظر میں ہندو اور مسلمان دونوں برابر ہیں؛

"اونچی ذات کے افراد، چاہے وہ سید، شیخ، مغل یا پٹھان ہوں مسلمانوں میں، یا برہمن، کشتری، ویش یا کایستھ ہوں ہندوؤں میں، یہ تمام لوگ اپنی اپنی ذات کےحساب سے ایسی ہی عزت کے حقدار ہونگے- اور نچلی ذات کے وہ تمام لوگ جیسے جمعدار، چمار، دھنوک اور پاسی ان کی برابری کا دعویٰ نہیں کرسکتے"-

حضرت محل کے آخری جملہ نے اس مخصوص سوچ کو واضح طورر پربیان کردیا جو اس سماجی رویہ پر مسلط تھا- اس بات نے یقینا امبیدکر کو بہت تکلیف پہنچائی ہوگی-

ایک نئی کتاب میں، جس میں تقریباً ایک کتاب کی طوالت کا مضمون ہے جس کا نام ہے (The Doctor and The Saint) "ڈاکٹر اور فرشتہ" ، گاندھی اور امبیڈکر کے درمیان مقابلہ کے بارے میں، لکھاری اور ایکٹوسٹ ارون دھتی رائے نے کوشش کی ہے کہ اس عظیم دلت رہنما کو بیسویں صدی میں ہندوستان کے ممتاز مفکر اور سماجی مصلح کا وہ مرتبہ جو گاندھی سے زیادہ بڑا ہے وہ انہیں واپس دلاییں- اس انتہائی تحقیقی مضمون کو پڑھ کر آنکھیں کھل جاتی ہیں اور یہ ایک طرح سے امبیڈکر کے بہترین مضمون "The Annihilation of Caste" کے تعارف کا کام دیتا ہے- رائے کی خیال آرائی دو کام کرتی ہے۔ ایک تو امبیڈکر کوپڑھنے کی تحریک دیتی ہے اور دوسرے یہ کہ چھپے ہوئے ثبوتوں کے خزانے کے ذریعہ وہ ایک نئے زاویہ سے روشنی ڈال کر گاندھی کا اور ان کی نفرت اورخوف کا نئی روشنی میں تجزیہ کرتی ہے-

امبیڈکر کی گاندھی کے ساتھ اصل بحث یہ تھی کہ ہندو ذات پات کا سسٹم اور اس کے اندر جڑی ہوئی لازمی نسلی عصبیت ایک جدید قومی ریاست کے مقاصد کے منافی ہے انہوں نے عورتوں اور ہندو معاشرے کے دوسرے پس ماندہ طبقوں کے ساتھ تفریق پر بھی تنقید کی- سیاسی اصلاح کو سماجی اصلاح کی توثیق کرنا چاہئے- یہ دلت لیڈر کا مطالبہ تھا- کانگریس نے گاندھی کی شمولیت سے پہلے ہی اس خیال کو رد کر دیا تھا-

"کیا ہم اس قابل بھی نہیں ہیں، " ڈبلیو۔ سی۔ بنرجی نے 1892ء کے کانگریس کے اجلاس میں گرج کر کہا "کیونکہ ہماری بیوائیں دوبارہ شادی نہیں کرتی ہیں یا ہماری بیٹیاں اور بیویاں ہمارے ساتھ دوستوں کے گھروں میں نہیں جاتی ہیں؟--- کیونکہ ہم اپنی بیٹیوں کو آکسفورڈ اور کیمبرج پڑھنے کیلئے نہیں بھیجتے ہیں؟" (حاضرین کی تالیاں)

امبیڈکر نے جب بدھ مت قبول کرتے وقت ہندو مذہب کو ترک کیا تو اس کے ایک سال کے بعد، "Annihilation of Caste" 1936ء میں چھپی تھی- رائے گاندھی کےقول کو دہراتی ہیں جب انہوں نے امبیڈکر کا جواب ایک مضمون کی صورت میں دیا تھا

جو مہاتما کی وہ شکل ہمیں دکھاتا ہے جو ہم دیکھنے کے عادی نہیں ہیں اگرچہ کہ گاندھی اکثر متضاد باتیں کرتے ہیں، انہوں نے ایک مضمون لکھا---- (٘The Ideal Bhangi) ''ایک مثالی بھنگی''--- اس ذات کے بارے میں جو انسانی فضلہ صاف کرتی ہے اور اس کو لے کر جاتی ہے- گاندھی کا مشاہدہ تھا کہ" برہمن ذات کا فرض روح کی صفائی کو دیکھنا ہے، بھنگی کا کام معاشرے کے جسم کی صفائی ہے"- وہ افسردہ تھے کہ بھنگیوں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے جب کہ ان کو برہمن کے برابر درجہ دینا چاہئے ( یقیناً موجودہ پرانی اوربوسیدہ درجہ بندیوں میں دخل اندازی کئے بغیر)

"معاشرے کی ایسی خدمت کرنے والے باعزت فرد کے اندر ایسی کونسی خوبیاں ہونی چاہئیں؟" گاندھی آگے لکھتے ہیں "میرے خیال میں، ایک مثالی بھنگی کو صفائی کے اصولوں کی مکمل معلومات ہونا چاہئے۔ اس کو اس کا علم ہونا چاہئے کہ ایک صحیح قسم کا باتھ روم کیسے بنایاجاتا ہے اور اسے صحیح طریقے سے صاف کرنے کا کیا طریقہ ہے--- میرے مثالی بھنگی کو رات کے فضلے اور پیشاب کی قسم کا پتہ ہونا چاہئے اور اسے ان چیزوں کو غور سے دیکھتے رہنا چاہئے اور ان میں کسی تبدیلی کی اطلاع فوراً مذکورہ شخص کو دینا چاہئے-"

امبیڈکر سمجھتے تھے کہ گاندھی کے خیالات سے منافقت کی بو آتی ہے- رائے جنوبی افریقہ میں ان کی افسانوی جدوجہد کے دوران گاندھی میں شروع سے یہ رجحان دیکھتی ہیں- (Boer Wars) کے زمانے میں وہ برطانیہ کی طرف سے جنگ میں شامل ہوئے ان کے فرائض فوج کی ایمبو لینس کور کے لئے تھے- دوسرے موقع پر، جب وہ ٹرانسوال میں ہندوستانی تاجروں کے خلاف پابندی پر احتجاج کرنے کی وجہ سے جیل گئے، تو اس وقت گاندھی نے لکھا: "ہم سختیاں سہنے کیلئے تیار تھے، لیکن اس طرح کے تجربے کیلئے نہیں- ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ہمیں گوروں کا درجہ نہیں مل سکتا ہے، لیکن ہمیں وہ درجہ دینا جو مقامی (Natives) کا ہے ہماری برداشت سے بہت زیادہ ہے--- کافر ویسے ہی وحشی لوگ ہوتے ہیں--- اور مجرم تو اور بھی زیادہ- وہ تکلیف دہ ہوتے ہیں، بہت ہی غلیظ اور بالکل جانوروں کی طرح رہتے ہیں-"

اور آخر میں، کیا آپ کو یاد ہے کہ گاندھی پر ہالی ووڈ کی ایوارڈ یافتہ فلم میں امبیڈکر کا رول کس نے کیا تھا؟ اس فلم میں ایسا کوئی کردار تھا ہی نہیں، ایک چھوٹا موٹا سامنے سے گذرنے والا رول بھی نہیں، جیسا کہ ارون دھتی نے نوٹ کیا ہے- جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، وہ جناح پر بننے والی فلم میں بھی نہیں تھے، حالانکہ جناح صاحب کے ساتھ ان کے بہترین تعلقات تھے- ان دونوں کو کانگریس سے تحفظ چاہئے تھا، اور وہ انہیں دوسری راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں ملا بھی-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: علی مظفر جعفری

تبصرے (0) بند ہیں