انتخابات کا موسم اور ہندوستانی مسلمان

اپ ڈیٹ 10 اپريل 2014
گوہاٹی سے کوئی 110 میل مشرق کی جانب آسام ریاست کے ناگوان ضلع میں کولیابر کے پولنگ اسٹیشن پر مسلم خواتین ووٹ ڈالنے کے قطار میں کھڑی ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
گوہاٹی سے کوئی 110 میل مشرق کی جانب آسام ریاست کے ناگوان ضلع میں کولیابر کے پولنگ اسٹیشن پر مسلم خواتین ووٹ ڈالنے کے قطار میں کھڑی ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
ناگوان میں ووٹنگ مشین ڈسٹری بیوشن سینٹر میں انتخابی عملے کے ایک اہلکار مسلم بزرگ کام کا جائزہ لے رہیں۔  —. فوٹو اے ایف پی
ناگوان میں ووٹنگ مشین ڈسٹری بیوشن سینٹر میں انتخابی عملے کے ایک اہلکار مسلم بزرگ کام کا جائزہ لے رہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

ہندوستان میں انتخابات کا موسم ہو اور مسلمانوں کی بات نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اسی موسم میں اچانک ایسا بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے ہندوستان کی تعمیر، جمہوریت اور سیکولر ازم کے لیے مسلم برادری ہی ذمہ دار ہے۔

سخت دائیں بازو کی بی جے پی سے لے کر بائیں بازو کی کمیونسٹ پارٹیاں بھی کچھ نہ کچھ ایسا تاثر دینے لگتی ہیں، جیسے کہ وہی صرف مسلمانوں کی خیر خواہ ہیں۔

ہندوستان کی بہت سی سیاسی جماعتوں کے ساتھ دانشور نے بھی ’ہندوستانی مسلمان‘ کہہ کر اس وسیع و عریض اور عظیم آبادی والے ملک کے ہر علاقے میں اسلام کے پیروکاروں کو ایک ہی سماجی و ثقافتی دائرے میں قید کرنے کی غلط کوشش کرتے ہیں۔

اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہندوستان میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے مسائل، سوچ، زندگی، ثقافت، زبان وغیرہ سب ایک ہی ہے اور ان میں کہیں بھی کسی طرح کا فرق یا اختلاف نہیں ہے۔

یہ ایک انتہائی غلط مفروضہ ہے، جس نے 1947ء سے لے کر اب تک ہمیشہ ہندوستان کی اکثریتی طبقے کو غلط فہمی میں متبلا کررکھا ہے۔

افسوسناک امریہ ہے کہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو ایک قوم سمجھنے والے، اپنے خیالات میں وہی مفروضے لیے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے دو قومی نظریے کو تقویت ملی تھی اور جس کے بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی تھی۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے پیروکار ہونے کے باوجود ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں بسنے والے مسلمانوں کے مذہبی، سماجی، تاریخی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی مسائل بالکل مختلف ہیں۔

ایک سیاسی حقیقت یہ بھی ہے کہ ابتدائی دور سے ہی اسلامی دنیا یا مسلم معاشرہ کبھی بھی ایک یونٹ نہیں رہا، تفرقات کی تو قدیم تاریخ موجود ہے۔ اس کا اثر ہندوستانی مسلم معاشرے پر بھی لامحالہ پڑنا تھا۔

1978-79ء میں ایران کے اسلامی انقلاب اور پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک میں اسلامی شریعت پر مبنی اقتدار نے اسلامی بنیاد پرستی کو انتہائی فروغ دیا۔ انہی دنوں سوویت یونین روس بھی انہدام کے قریب تھا۔ روس کے انہدام کے بعد سامراجی طاقتوں نے اسلامی بنیاد پرستی کا ہوّا کھڑا کیا۔چنانچہ اس مسلم بنیاد پرستی سے ہندوستان میں ہندو فرقہ پرستی کو بھی ترغیب ملی۔

یہی ہے وہ ہوّا، جس سے ہندو مذہب کے پیروکاروں کو ڈرا کر سیاست کے ہوشیار مداری ایک نئی طرز کی ڈگڈگی بجا رہے ہیں۔

دوسری جانب مسلم ووٹوں کے لیے ہر پارٹی ہر روز ایک نیا اعلان کررہی ہے۔ کوئی ان سے معافی مانگ رہا ہے تو کوئی ان کے پرسنل لاء کو مختلف طریقے سے پیش کرنے کاڈھونگ رچا رہا ہے، تو کوئی مسلمانوں کے سڑک چھاپ یا گینگ لیڈروں سے اپنے لیے حمایت حاصل کر رہا ہے۔ حالانکہ مسلم برادری کے مسائل سے ان دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔

اگر غیرجانبدار ہوکر دیکھا جائے تو بہت سے معاملات میں ایسے ہی سڑک چھاپ لیڈر مسلم برادری کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔

ان کے ووٹ کے لیے ایک بار پھر لیڈر اپنا ماسک تبدیل کر رہا ہے۔ کچھ ہوشیار اور چالاک مسلم رہنماؤں کی اس موسم میں گویا لاٹری نکل آئی ہے۔ جو پانی کے بلبلوں کی مانند روز اُبھر رہے ہیں اور نت نئے ناموں سے پارٹی، جماعت، فرنٹ وغیرہ بنا رہے ہیں۔

یوپی کےبزنس مین ندیم الحسن جو ہندوستان کے تقریباً 18 کروڑ مسلم ووٹروں میں سے ایک ہیں۔ ندیم بھی مانتے ہیں کہ مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کے طور پر دیکھا جاتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کے لیے ہندوستان کی آزادی سے آج تک کسی نے کچھ نہیں کیا ہے۔ ہر کوئی ایک جیسے وعدے کرتا رہا ہے۔ مجھے ذرا بھی حیرت نہیں ہوگی اگر نئی حکومت بھی اقتدار میں آنے کے بعد یہ بھول جائے کہ مسلمان بھی ہندوستان کا حصہ ہیں۔‘‘

ہندوستان میں مسلمان اقلیت ضرور ہیں، لیکن ان تعداد کافی زیادہ ہے، لگ بھگ 14 فیصد۔ اس سے ان کی حیثیت اقلیتوں سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ اندازہ ہے کہ لوک سبھا کی 20 فیصد نشستوں کے نتائج کا فیصلہ مسلم ووٹرز کے ذریعے ہوگا۔

ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حالات کا جائزہ لینے والی سچر کمیٹی کی رپورٹ نے 2006ء میں بتایا کہ ’’ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت نچلی ذات کے لوگوں سے بھی بدتر ہے۔‘‘ اور ملک کی بیوروکریسی میں ان کی شرکت ڈھائی فیصد بھی نہیں۔

اس کے بعد سچر کمیٹی کی کئی سفارشات سامنے آئیں، اور ان کی ورکنگ رپورٹ کے لیے جے این یو کے پروفیسر امیتابھ كڈو کی صدارت میں ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی۔ امیتابھ كڈو کہتے ہیں ’’مسلمانوں کو امید تھی کہ ان کے حق میں کچھ بہتر ہوگا۔ لیکن میرے خیال میں گزشتہ پانچ چھ سالوں میں موجودہ حکومت کی کارکردگی سے انہیں مایوسی ہوئی ہوگی۔‘‘

ہندوستان کا اقتدار کانگریس کے پاس دس سال رہا ہے، کسی زمانے میں مسلمان ووٹروں کی اولین پسند کانگریس ہی ہوا کرتی تھی۔ لیکن رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس نے بھی مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا اور اوپر سے کرپشن کی وجہ سے تمام ہندوستانی پریشان ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں ہندوستان کا مسلمان ووٹر اقتدار کی مسند پر کس کو لانا چاہے گا؟

گوکہ اس وقت سب سے مضبوط متبادل اور ترقی کا وعدہ کرنے والے بی جے پی کے نریندر مودی ہیں، لیکن ان کے دامن پر گجرات کے خونیں فسادات کا داغ ہے اور انہیں بھارت کا مسلمان اچھا نہیں سمجھتا۔

ہندوستان کے ایک معروف تجزیہ نگار سنجے کمار کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے بی جے پی کی تصویر ایسی ہے کہ وہ اسے ہر حال میں شکست دینا چاہیں گے۔ جب مسلمان ووٹ ڈالنے جاتے ہیں تو ایسے فرد کو ترجیح دیتے ہیں، جو ان کے انتخابی حلقے میں بی جے پی کو شکست دے سکے۔

مسلمانوں کو 1992ء میں بابری مسجد کا انہدام اور 2002ء میں گجرات کے ہولناک فسادات بی جے پی کی مخالفت پر آمادہ کرتے ہیں۔ بابری مسجد گرائے جانے کے بعد ہندوستان بھر میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے، جبکہ گجرات فسادات میں ہزاروں لوگوں کی جان گئی تھی، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔

پورے ہندوستان میں اتر پردیش میں سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں، لیکن بی جے پی نے وہاں سے ایک بھی مسلمان امیدوار کو اپنا ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ پھر بھی اس پارٹی کے ایک مسلمان رکن مختار عباس نقوی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان ان کی پارٹی کی تصویر بگاڑنے کی سازش طویل عرصے سے تیار کی جارہی تھی۔وہ تصویر بہت سوچ سمجھ کر حکمت عملی کے تحت بنائی گئی تھی۔

مختار عباس نقوی کا کہنا ہے کہ ہم نے اس تصور کو تبدیل کرنے کی بھی کوشش کی تاہم ہمیں جتنی کوشش کرنی چاہئے تھی اتنی کوشش ہم نہیں کر پائے۔ گزشتہ تین سالوں میں ہم نے ایک وسیع پیمانے پر ایک مہم چلائی کہ معاشرے کے تمام طبقوں میں، خاص کر مسلمانوں میں، بی جے پی کے حوالے سے جو تصور قائم ہوگیا ہےاس کو تبدیل کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں بی جے پی کے بارے میں مسلمانوں کی سوچ میں کافی حد تک مثبت تبدیلی آئی ہے۔‘‘

ابھی کچھ عرصہ قبل مظفر نگر کے فسادات کے بعد مسلمانوں کے سیاسی اتحاد مزید بدلے ہیں ۔ ریاست یو پی کے مسلمان سماج وادی پارٹی سے بھی ناراض ہیں اور انہیں بی ایس پی، کانگریس، بی جے پی اور نئی نویلی عام آدمی پارٹی کے درمیان اپنا فیصلہ کرنا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی سوچ کی تشکیل میں فسادات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ سنجے کمار کے الفاظ میں ’’مسلمانوں کے لیے اپنی حفاظت اہم مسئلہ بن گیا ہے ۔‘‘

سلمان حسین ، ہندوستان کے سب سے زیادہ بااثر اسلامی مدرسے ندوۃ العلماء لکھنؤ میں پڑھاتے ہیں،کہتے ہیں کہ’’گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں مودی کے کردار نے بی جے پی بنیادی طور پر مسلم مخالف پارٹی ہے۔‘‘

اس انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی اپنی اپنی پریشانیوں سے دو چار ہیں۔ جہاں کانگریس اقتدار مخالف عوامل سے نمٹنے کے راستے تلاش کر رہی ہے، وہیں بی جے پی کو تنظیم کی کمزوری اور اتحاد کو مضبوط کرنے جیسے بڑے مسائل درپیش ہیں۔

ایسے میں دونوں ہی کی نگاہیں مسلم ووٹروں پر ہیں اور ان کی خاموشی ان پارٹیوں کی نیند میں خلل ضرور ڈال رہی ہے۔

بی جے پی کی طرف سے ہمیشہ یہی اشارہ دیا جاتا رہا تھا کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کا ایجنڈا ہی ہندو مذہب ہے۔ ایسے میں ان کی سیاست خود کار طریقے سے مسلم مخالف ہو جاتی ہے۔لیکن بے جی پی اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کے دل جیتنے کی ہرممکن کوشش کرتی ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ بغیر مسلمانوں کے ووٹ کے بی جے پی کو تنہا لوک سبھا میں اکثریت نہیں حاصل ہو سکتی ہے۔

لیکن ہندوستان کا ایک عام مسلمان اتنا سیکولر ضرور ہے کہ وہ فرقہ وارانہ پارٹیوں کو، سوائے کچھ مستثنیات کے، کبھی ووٹ نہیں دیتا، چاہے امیدوار مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں