جادو کا چراغ: چنگیز خان اور شاعر کا کٹورا

منگول فوج کے اگلے دستے کے کمانڈر نے خود کو روکنے اور واپس مڑنے کیلئے اتنی زور سے گھوڑے کی باگ کھینچی کہ وہ درد کی شدت سے ہنہنا اٹھا-
منگول فوج کے اگلے دستے کے کمانڈر نے خود کو روکنے اور واپس مڑنے کیلئے اتنی زور سے گھوڑے کی باگ کھینچی کہ وہ درد کی شدت سے ہنہنا اٹھا-

منگولوں کا لشکر جس کی قیادت خود چنگیز خان کر رہا تھا نیشاپور کے باہر اپریل 1221 کے موسم بہار کے آغاز پر پہنچا- منگول چراگاہوں پر پھیل گئے اور ان کے چھوٹے چھوٹے خیمے ان میدانوں پر کچھ ایسے محسوس ہو رہے تھے جیسے وہ بدصورت طفیلی پودے جو کبھی کبھار زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں-

شہر کا محاصرہ کر لیا گیا تھا اور دونوں جانب سے جاسوس متعین کر دیے گئے تھے تاکہ مخالف کے بارے میں پتہ چلتا رہے- منگول جنرل سے اب تک کوئی رابطہ قائم نہیں ہوا تھا اور شہر میں پھنسنے والے اس فکر میں مبتلا تھے کہ کب حملہ ہو گا- حملہ آوروں کے خیموں سے اٹھتی کھانوں کی مہک، گھوڑوں کی گند اور ہنہناہٹ نے شہر کی فضا اور باشندوں میں خطرے کی پیش بینی کے احساس کو گہرا کر دیا تھا-

شہر کے اندر اپنی قسمت کے بارے میں اندازہ لگانے والوں میں ایک فارماسسٹ اور شاعر فریدالدین عطار بھی شامل تھا جو کہ اب تک صرف اپنے آبائی شہر کے چھوٹے سے ادبی حلقے ہی میں جانا جاتا تھا حالانکہ اس کے قابل ہمعصر عظیم استادوں کی طرح اس کا عزت و احترام کرتے تھے-

اس نے دربار میں درباری شاعروں کی قصیدہ گوئی اور مدح سرائی پر تنقید کر کے ادبی ناموری کمانے کا ہر موقع گنوا دیا تھا-

خاندانی دولت نے اسے کسی سرپرستی کی ضرورت سے آزاد رکھا ہوا تھا سو اس نے خود کو اپنے کام میں غرق کر دیا تھا-

تقریباً پچھتر برس کی عمر کے اس شخص نے خود آگاہی کے سفر پر نکلے منطق الطیور کی طرح بہت سی وادیوں کی خاک چھانی تھی اور وہ جانتا تھا کہ اب اس کا خاتمہ نزدیک ہے- پر منگولوں کی آمد نے اسے پریشان کر دیا تھا- منگولوں کے ہاتھوں قتل عام کے بعد، تباہ و برباد اور جلا کر بھسم کر دیے جانے والے شہروں اور قصبوں کی داستانوں سے وہ لاعلم نہیں تھا-

اس نے خود کو زیادہ تر خواہشات سے لاتعلق کر لیا تھا اور اسے اپنے انجام کی بھی زیادہ پرواہ نہیں تھی- پھر بھی وہ خود کو اس فرض سے لاتعلق نہیں کر پایا تھا جو وہ ان لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کے حوالے سے محسوس کرتا تھا جن کے ساتھ اس نے اتنا وقت گزارا تھا-

اور پھر ایک رات کو جاسوس یہ خبر لائے کہ منگول فوج حملے کی تیاری کر رہی ہے- عطار اپنی لائبریری میں چلا گیا- اور پھر جب صبح صادق کے وقت، منگولوں نے جنگ کا طبل بجایا، جب گھوڑوں کی ٹاپوں سے شہر کی فضائیں گونجنے لگیں اور محصور ہوئے مرد اور عورتیں گھبراہٹ کا شکار ہونے لگیں تو عطار نے لائبریری سے اپنا لکڑی کا سوپ کا پیالہ اٹھایا اور جس جاء نماز پر وہ خود بیٹھا تھا اس پر الٹا کر رکھ دیا-

منگول فوج کے اگلے دستے کے کمانڈر نے خود کو روکنے اور واپس مڑنے کیلئے اتنی زور سے گھوڑے کی باگ کھینچی کہ وہ درد کی شدت سے ہنہنا اٹھا- اس نے اپنے جنگجوؤں کو بھی رکنے کے لئے اپنا ہاتھ اٹھایا- تاہم انہوں نے بھی مارے ڈر کے پہلے ہی باگیں کھینچ لی تھیں- جو کچھ ابھی ہوا تھا انہیں اس پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا- ان کی آنکھوں کے سامنے وہ شہر، جس کے مینار اور فیروزی عمارتیں صبح کی کرن پڑنے پر چند لمحوں پہلے تک جگمگا رہی تھیں، ایک دم سے جیسے ہوا میں غائب ہو گیا تھا-

کمانڈر نے دل ہی دل میں چند گالیاں بکیں، پھر کچھ دعائیں پڑھیں اور پھر ایک نعرہ جنگ بلند کرتے ہوئے آگے بڑھا- اس کے آدمی بھی تلواریں لہراتے اس کے پیچھے چلے- اور پھر جب دائیں اور بائیں جانب کے دستے اس جگہ پہنچے جہاں اگلے دستوں کے سپاہیوں نے شہر کو غائب ہوتے دیکھا تھا تو وہ ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے- اگلے دستوں کے سپاہی اس جگہ پر ایک بہت بڑے میدان میں ہوا میں اپنی تلواریں لہرا رہے تھے جہاں چند لمحوں پہلے شہر کھڑا تھا-

شہر میں بھی باسیوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا- کسی چیز نے منگول فوج کو روک لیا تھا پر جاسوس اس کی وجہ نہیں بتا پا رہے تھے-

اور پھر جب منگول اپنے کیمپ واپس پہنچ کر اپنے گھوڑوں کی زینیں اتار چکے تو انہیں ایک بار پھر نیشاپور کا شہر افق پر دکھائی دینے لگا- خیر اپنے آدمیوں پر چنگیز خان کی دہشت اتنی تھی کہ صرف ایک شہر کے آنکھوں کے سامنے سے غائب ہونے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑا- پر ایسا ہی اگلے روز دوبارہ ہوا جب عطار نے ایک بار پھر اپنا پیالہ الٹا دیا-

لشکر میں پھیلتی بے چینی کی خبریں جب چنگیز خان تک پہنچیں تو اس نے اپنے خاص لوگوں سے کہا کہ اسے ڈر ہے کہ اس شہر میں کوئی بزرگ رہتے ہیں جن کی طاقت اس کی حفاظت کر رہی ہے- اس نے اعلان کیا کہ تیسرے حملے کی قیادت وہ خود کرے گا اور اگر یہ حملہ بھی ناکام رہا تو وہ واپس لوٹ جائیں گے-

تیسرے دن، جنگ کے نقارے زیادہ زور سے بجائے گئے، اگلے دستے ایک وسیع علاقے میں پھیل گئے اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں بھی زیادہ اونچی آواز میں سنائی دینے لگیں- جیسے ہی عطار نے اپنا پیالہ اٹھایا اسے لگا جیسے اس کے ساتھ کوئی کھڑا ہے- اس نے اوپر دیکھا تو حضرت خضر (ع) تھے جنہوں نے اس کے ہاتھ سے پیالہ لے لیا- جب عطار نے احتجاج کیا تو حضرت خضر (ع) نے پیالہ واپس کر دیا اور کہا

"کبھی نہ بھولنا کہ تمھارے اوپر کوئی ہے جس کے پاس زندگیوں کا اختیار ہے- اس کے آگے تم کوشش بھی کر لو تب بھی کوئی طاقت کام نہیں آنی- تمہاری موت کا پروانہ جاری ہو چکا ہے- موت کی ساتویں وادی اور محرومی تمہارا اور بہت سے دوسروں کا انتظار کر رہی ہیں"-

نیشاپور پر حملے کے بعد، جہاں منگول فوج نے بہت بڑا قتل عام کیا، چنگیز خان کی شہرت اور دہشت میں کئی گنا اضافہ ہوا- مرنے والوں میں ایک بوڑھا شخص بھی شامل تھا جس نے اپنی لائبریری میں اس وقت بھی اپنا سر سجدے سے نہیں اٹھایا جب منگول فوج داخل ہوئی-

انگلش میں پڑھیں


مشرف علی فاروقی ایک لکھاری، ناولسٹ اور ترجمہ نگار ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (5) بند ہیں

نوید شاہین May 13, 2014 04:35pm
یہی بات خضر نے منگول خان کو کئی ہوتی تو شاید بہت سی اور جانیں بچ جاتی۔ اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ مضمون منگول خان کی صفائی میں لکھا گیا ہے کہ مارنے والا تو اللہ ہے منگول خان پر الزام ویسے ہی ہے۔ اس طرح ہر قاتل بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ شاباش
Rubina May 13, 2014 10:21pm
Jhoot.....safed jhoot...
nadir shahwani May 14, 2014 12:51am
ڈان جیسے ذمہ دار ادارے کو نسیم حجازی ٹائپ کے بے ہودہ قصے نہیں چھاپنے چائیے۔ یہ قصے سکولوں کے باہر ٹھیلوں پر چھوٹے چھوٹے کتابچوں پر فروخت ہوتے ہو۔ نہ کہ معاشرے کی جہالت کو مزید پختہ کرنے کے لیے فیس بک پر شئیر کیے جائیں۔
Haji Gulzari May 14, 2014 01:31am
An to hamain apnaay Bachoon ko doroost History Padhnay Aur Padhanaay ki Neyyat Karni Chaheyeh. Abb Too Jhoot Ki ya تحريف Kay lieyeh Koi Market Nahi Rahaa. Yahie wajah Haay Kaay Mulkaay Aziz Maay Afsanoo Nay Haqiqat ki Jagah Li Haay. Hazara Archives UK
Hazara Mongol May 15, 2014 01:55pm
I must say that I smell the hatred in this blog. Does any one know about the history of Changez khan? Dawn News should be ashamed of themselves. The mailing system was the invention of Changez Khan. The attacking strategy of the Army of any country has been inspired by Changez Khan. I want to say so many other things, but I am disappointed that the Punjabi mindset will never except it and will always spread hatred.