اختلاف کی گنجائش نہیں

اپ ڈیٹ 14 مئ 2014
بحرانوں کا  ماحول پاکستان کو گھیرے میں لے رہا ہے، نواز شریف اور پاکستانی فوج کا ایسی صورت میں ہم خیال ہونا ضروری ہے-
بحرانوں کا ماحول پاکستان کو گھیرے میں لے رہا ہے، نواز شریف اور پاکستانی فوج کا ایسی صورت میں ہم خیال ہونا ضروری ہے-

وزیر اعظم نوازشریف کی حکومت اور جنرل راحیل شریف کے تحت فوج کے درمیان تعلقات میں نمایاں اختلاف ضرور کم ہوئے ہونگے جب میاں نوازشریف نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کی ایک پاسنگ آؤٹ پریڈ کی صدارت ایک بہت اہم بات علامتی اظہار کے طور پر کی-

لیکن مسٹر شریف کی کاکول اکیڈمی میں فارغ التحصیل ہونے والے کیڈٹس کی گریجویشن کے موقع پرموجودگی، جو اپنے فوجی پیشہ کا آغاز سیکنڈ لفٹننٹ کے طور پر شروع کرنے جارہے ہیں، شاید ہی اس اختلاف کے مکمل خاتمہ کی جانب ایک اشارہ تھی-

حکمران سیاست دانوں اور فوجی جنرلوں کے درمیان حالیہ دوری یا اختلاف کی وجہ جو نظر آتی ہے وہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی قسمت کے فیصلے سے متعلق ہے، جو 1999 کے انقلاب کے خالق اور وزیر اعظم کے سابق حریف تھے-

لیکن اس اختلاف میں کمی نہ ہونے کی وجہ وہ ناکام اور متنازعہ امن مذاکرات بھی ہیں جو حکومت اور طالبان کے درمیان جاری ہیں--- جو پاکستانی فوج کے ساتھ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے نبرد آزما ہیں-

راولپنڈی میں شہداء کی یاد میں اپریل کے اواخر میں منقد کئے جانے والے فوج کے سالانہ اجتماع میں شرکت کرنے والوں کیلئے، یہ بہ آسانی ایک ایسا موقع بن جاتا ہے جس میں، 2001ء میں افغانستان پر امریکن حملے سے لیکر آج تک فوج اور سیکیورٹی کے جوانوں کی جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں وہ سب ان کو یاد آ جاتی ہیں-

یہ بات سمجھنا بہت مشکل نہیں ہے کہ وہ سارے فوجی افسر اور جوان جو افغان سرحدوں پر طالبان سے جنگ کے بعد محاذ سے واپس لوٹے ہیں، ان کیلئے دشمن سے تعلقات بحال کرنے کیلئے امن مذاکرات کے بارے میں سوچنا بھی ایک بے حد مشکل امر ہے-

جیسے جیسے پاکستان اپنی 67 سالہ تاریخ کے بدترین سلامتی کے بحران میں الجھتا جاتا ہے، ان اختلافات سے جو حکمران سیاست دانوں اور فوج کے جوانوں کے درمیان ہیں کسی کو فائدہ نہیں ہوگا سوائے ان تشدد پسند گروہوں کے جو ملک پر طاقت کے زور پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں- اور اختلاف کی اس خلیج کو پاٹنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے جتنا کہ نظر آتا ہے-

وزیراعظم اور فوج کے درمیان تعلقات میں ایک دوسرے کیلئے بے اعتمادی کی تاریخ کافی پرانی ہے اور اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوسکتی - نواز شریف جنرل مشرف کی 1999ء کی بغاوت کے بعد پچھلے سال حکومت میں تاریخی طور پر واپس آئے- وزیراعظم نے یقیناً پاکستان کی تاریخ میں اپنی ایک جگہ بنالی ہے، ایک ایسے پہلے سیاست دان کے طور پر جو تیسری بار ایک منتخب حکومت کے سربراہ کی حیثت سے اسلام آباد واپس لوٹے ہیں-

ایک ایسے ملک میں یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے جہاں تاریخی اعتبار سے وزرائے اعظم کو عموماً دشوار اور نامکمل دورحکومت کا سامنا کرنا پڑتا ہے- ذوالفقارعلی بھٹو، وہ واحد مقبول عام منتخب سیاست دان تھے جنہوں نے اپنی حکومت کی مدت پوری کی، اور بالاخر 1979ء میں پھانسی کی سزا بھگتی اور اپنے پیچھے ایسی روایت چھوڑ گئے جو آج تک پاکستان کے ایک حصہ کیلئے ڈراؤنے خواب کی مانند ہے-

2008ء میں جنرل مشرف کے جانے کے بعد جمہوریت واقعی پاکستان میں واپس تو آئی، لیکن اس نیوکلیر ملک میں اس کے مشکل محل وقوع کی وجہ سے اس کا استحکام ابھی تک یقینی نہیں-

پاکستان کو استحکام دینے کا مشکل کام کرنے کیلئے شریف صاحب کے ساتھ ان کی حکمران جماعت کو یکسو ہوکر بہت سارے محاذوں پر کام کرنا ہو گا- وزیرخزانہ اسحاق دار کی کئی بار دہرائی ہوئی کامیابی کے باوجود جو روپیہ کی قیمت میں استحکام کی وجہ سے آئی ہے- وہ چارٹرڈ اکاونٹنٹ سے وزارت خزانہ کے باس تو بن گئے لیکن اپنے دعوے کی سطحیت کو سمجھنے میں ناکام ہیں-

پاکستان میں جہاں بیس کڑوڑ آبادی میں 40 فی صد لوگ حد سے زیادہ غربت کا شکار ہیں، معاشی کامیابی محض ایک خواب ہی رہیگی جب تک کہ غریب سے غریب تر شخص کو اپنی زندگی میں کسی قسم کی تبدیلی کے آثار نہیں دکھائی دیتے-

پاکستان کو استحکام دینے کے مشکل کام کی گتھی اس طرح سے سلجھائی جا سکتی ہے کہ اندرونی سلامتی کا بھیانک خواب جس کا اس وقت پاکستان سامنا ہے اس سے پاکستان کو نمٹنا ہو گا- آنے والے مہینوں میں جب امریکی فوجیں افغانستان سے چلی جائینگی، پاکستان کیلئے افغانستان-پاکستان سرحد کے دونوں جانب سے طالبان کی طرف سے خطرہ بڑھ جائیگا- کیونکہ ان کی ہمتیں بھی بڑھی ہوئی ہونگی-

آگے بڑھتے ہوئے، طالبان کے ساتھ امن کے بے مقصد مذاکرات کے نتیجے میں داخلی سیکیورٹی کا خراب تر ماحول بھی ہمارا منتظر ہو گا-

بحرانوں کا ایک ماحول پاکستان کو اپنے گھیرے میں لے رہا ہے، نواز شریف اور پاکستانی فوج کا ایسی صورت میں ہم خیال ہونا ضروری ہے- اگرچہ فوج نے پاکستان کے تاریخی سول - فوج تناؤ کے نتیجے میں فوجی بغاوت کے خلاف یقین دہانی کرائی ہوئی ہے، لیکن آخر کار عمل سے ہی پتہ چلے گا الفاظ چاہے کچھ بھی کہیں-

نواز شریف کو پاکستان کے ایک منتخب قائد کی طرح قیادت کرنے کی ضرورت ہے، اس لئے ان کو اس کا ادراک ہونا چاہئے کہ، ایک بددل فوج اس پورے اہم ادارہ کو بیگانہ اورمنحرف بنا سکتی ہے جبکہ آئندہ ہونے والی جنگ زیادہ خونی ہوسکتی ہے-

دراصل، پاکستان کے جمہوری اورسویلین اداروں کا اتحاد ہی ملک کو درپیش شدید چیلینجوں کا مقابلہ کر سکتا ہے جس نے ملک کے تاروپود کو بکھیر دیا ہے-

تاہم، اس کا نتیجہ صرف اسی صورت میں نکلے گا جب ہم تشدد پسندی کے خلاف جنگ پوری طرح سے جیت جائینگے-

واضح طور پر، نواز شریف کو پاکستان کو مستحکم کرنے کا موقع ملا ہے- لیکن اس جانب پہلا قدم اس سول-ملٹری اختلاف کا خاتمہ ہونا چاہئے- اس سے کم، شریف صاحب کی یہ امید کہ فوج کے کیڈٹس کی پریڈ میں ان کی موجودگی ان ساری باتوں کا مداوا کرسکتی ہے، ایک خیال خام ہوگا- ایک موقع کو کھو دینے کا ایک بھدا طریقہ-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: علی مظفر جعفری

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad May 15, 2014 11:47pm
فوجی‏ ‏سیاسی‏ ‏احتلاف‏ ‏کو‏ ‏معاشی‏ ‏صورت‏ ‏حال‏ ‏سے‏ ‏نہیں‏ ‏جوڑا‏ ‏جاسکتا‏ ‏ھے‏ ‏سب‏ ‏جانتے‏ ‏ھیں‏ ‏کہ‏ ‏ھماری‏ ‏معاشی‏ ‏حالات‏ ‏کیوں‏ ‏حراب‏ ‏ھے‏ ‏اسکا‏ ‏سرا‏ ‏بھی‏ ‏کہیں‏ ‏نہ‏ ‏کہیں‏ ‏جہاں‏ ‏سے‏ ‏ملنا‏ ‏چاھیے‏ ‏وہی‏ ‏ملتا‏ ‏ھے‏ ‏اندرونی‏ ‏کشیدہ‏ ‏صورت‏ ‏حال‏ ‏بھی‏ ‏سیاستدانوں‏ ‏کی‏ ‏پیدا‏ ‏کردہ‏ ‏نہیں‏ ‏دہشتگردی‏ ‏بھی‏ ایک‏ ‏مہینہ‏ ‏سے‏ ‏کم‏ ‏وقت‏ ‏‏حتم‏‏ ‏کی‏ ‏جاسکتی‏ ‏ھے‏ ‏وہ‏ ‏کیسے‏ ‏یہ‏ ‏بھی‏ ‏پاکستان‏ ‏کا‏ ‏بچہ‏ ‏بچہ‏ ‏جانتا‏ ‏ھے‏ ‏ احر‏ ‏میں‏ ‏ایک‏ ‏تجویز‏ ‏یہ‏ ‏کہ‏ ‏عسکری‏ ‏تربیت‏ ‏میں‏ ‏یہ‏ ‏بات‏ ‏شامل‏ ‏کی‏ ‏جاسکتی‏ ‏ھے‏ ‏کہ‏ ‏ھم‏ ‏ملک‏ ‏کے‏ ‏ائين‏ ‏اور‏ ‏قانون‏ ‏کی‏ ‏حفاظت‏ ‏کرینگے‏ ‏اور‏ ‏کبھی‏ ‏بھی‏ ‏ملک‏ ‏کی‏ ‏سیاست‏ ‏میں‏ ‏حصہ‏ ‏نہیں‏ ‏لینگے‏ ‏اور‏ ‏کسی‏ ‏بھی‏ ‏حالت‏ ‏میں‏ ‏حکمرانی‏ ‏میں‏ ‏شریک‏ ‏نہیں‏ ‏ھونگے‏ ‏ ‏