ماضی، حال اور مولانا آزاد

09 جون 2014
بائیں سے دائیں؛ راجیندر پرساد،  محمد علی جناح، سی راجا گوپال اچاری، ابوالکلام آزاد -- شملہ کانفرنس، 1946 -- فوٹو -- وکی میڈیا کامنز
بائیں سے دائیں؛ راجیندر پرساد، محمد علی جناح، سی راجا گوپال اچاری، ابوالکلام آزاد -- شملہ کانفرنس، 1946 -- فوٹو -- وکی میڈیا کامنز

مولانا ابولکلام آزاد ایک عظیم اسکالر، خطیب اور سیاستدان تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے مذہبی اور سیاسی رجحانات پر اثر ڈالا- ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا لہٰذا ان کے بے شمار عقیدتمند بھی تھے جو ان کی تقلید کرنا عین ثواب سمجھتے تھے- ایک مذہبی اسکالر کی حیثیت سے وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ہندوستان کی مسلم کمیونٹی کو مذہب کے ذریعے دوبارہ جوان کیا جا سکتا ہے-

اپنے مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے 1912 میں علمائے دین کی پارٹی تشکیل دی جسے حزب الله کے نام سے جانا جاتا ہے- وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے علمائے دین کو سیاست میں شریک کیا تا کہ مذہب کے ذریعے ہندوستان کے مسلمانوں کو متحد کرنے کا مقصد حاصل کیا جا سکے اور اپنی بقاء کے لئے جدوجہد کے حوالے سے ان میں سیاسی شعور بیدار کیا جا سکے- اپنی اس تنظیم کی بنیاد پر وہ چاہتے تھے کہ علمائے مذہب کو سیاست کے اسرار و رموز کے حوالے سے ٹرین کیا جائے اور انہیں ان کی خود ساختہ تنہائی سے نکالا جائے-

اپنے کردار کو آگے بڑھانے کے لئے آزاد ایک پین اسلامی بن گئے اور دو ہفتہ وار اخبارات شروع کئے، 1912 میں الہلال اور 1914 میں البلاغ جن کے ذریعے انہوں نے مسلم دنیا کی خبریں پھیلانا شروع کر دیں- جب سلطنت عثمانیہ بالکن جنگوں میں مصروف تھی تو ان کے اخبارات نے اس کے بارے میں اکثر خبریں رپورٹ کیں جن میں ترکی کاز کے ساتھ ہمدردی واضح تھی- ہندوستان کے اکثر مسلمان ان اخبارات کو پڑھنے لگے کہ اس سے ان میں شناخت کا احساس پیدا ہوتا تھا اور انہوں نے خود کو وسیع تر اسلامی دنیا کے ساتھ منسلک محسوس کرنا شروع کر دیا-

آزاد نے علمائے دین کے تاریخی کردار کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی بھی کوشش کی- اپنی کتاب 'تذکرہ' میں انہوں نے مسلم کمیونٹی کے لئے علماء کے کردار کا کھوج لگایا اور شیخ احمد سرہندی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا- ان کے مطابق شیخ سرہندی نے تنہا مغل شہنشاہ اکبر کے 'ملحدانہ نظریات' کے مقابلے میں اسلام کے لئے مزاحمت کی اور اس کا دفاع کیا- آزاد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے شیخ سرہندی کو بطور ہیرو پیش کیا اور اکبر کی مذہبی پالیسیوں پر تنقید کی-

اکبر کے بارے میں آزاد غلط تھے کہ اس کے خیالات ملحدانہ تھے- تاریخی اعتبار سے بھی یہ بات غلط ہے- اکبر ملحد یا (ATHEIST) نہیں تھے بلکہ اس کے برعکس ان کا مقصد تو سچائی کی تلاش تھا- اس مقصد کے لئے انہوں نے تمام مذاہب کے عالموں اور اسکالرز کو 'عبادت خانے' آنے کی دعوت دی تھی جو کہ انہوں نے فتح پور سیکری میں قائم کیا تھا جہاں وہ ان سے ان کے عقائد کے حوالے سے بات چیت کیا کرتے تھے-

آزاد کی جانب سے تاریخ کی تشریح نے بہت سے غلط فہمیوں کو جنم دیا- اس کے نتیجے میں احمد سرہندی دو قومی نظرئیے کے ایک چیمپئن بن کر سامنے آئے جبکہ اکبر کی 'سیکولر' اور اسلام دشمن کے طور پر مذمت کی جانے لگی- اس کے علاوہ انہوں نے شاہ ولی اللہ جیسے علماء کی ہندوستان کے مسلمانوں کے مصلح کے طور پر کی جانے والی خدمات پر تعریف کی- ان کی لکھی تحریروں سے ان علماء کی ساخ بہتر ہوئی جنہوں نے آگے چل کر ہندوستانی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کیا-

وہ ایک ایسے پین اسلامسٹ سے جو کہ علمائے دین کو سیاست میں متعارف کروانے کا ذمہ دار مانے جاتے ہیں ایک نیشنلسٹ بن گئے- تاہم ان کی زیادہ تر زندگی پراسراریت کے پردوں میں چھپی رہی- جب ہندوستان میں خلافت موومنٹ کا آغاز ہوا تو آزاد اس کے پرجوش حمایتی بن گئے- اس کی ناکامی کے بعد، انہوں نے انڈیا کے مسلمانوں کا سپریم لیڈر بننے کی بھی کوشش کی تاہم وہ اس کوشش میں ناکام رہے کیونکہ مذہبی اسکالرز نے انہیں ایک امام کی حیثیت سے قبول کرنے سے انکار کر دیا- اس ناکامی کے باوجود ان کے ماننے والوں نے انہیں امام الہند نام سے پکارنا شروع کر دیا- اس سے ہوا یہ کہ مزید اماموں کے لئے دروازے کھل گئے جیسے امام الشریعہ جو عطااللہ شاہ بخاری کا لقب ٹھہرا-

آزاد نے اپنی اردو تحریروں میں ایک خاص انداز اپنایا- انہوں نے سر سید احمد خان کا متعارف کروایا گیا سادہ طرز تحریر تبدیل کر دیا- سر سید نے اس سادہ طرز تحریر کے ذریعے اردو کو فارسی ترکیبوں سے آزاد کروایا تھا- جبکہ ان کے مقابلے میں آزاد نے زبان کو عربی زدہ کرنے کے لئے مذہبی ترکیبوں، استعاوں اور عربی الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا- اس سب کے نتیجے میں عام پڑھنے والوں کے لئے اردو زبان کو سمجھنا خاصی حد تک مشکل ہو گیا-

آزاد کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں موجود ہیں- کسی کو ان کی جائے پیدائش نہیں معلوم اور اس حوالے سے بھی رائے میں اختلاف ہے کہ آیا انہوں نے الازہر سے تعلیم حاصل کی تھی یا نہیں- تاہم اس حوالے سے وہ ہمیشہ خاموش رہے اور کبھی بھی اپنی پوزیشن واضح نہیں کی- شاید وہ اپنی شخصیت کو خود بھی اسرار کے پردوں میں چھپائے رکھنا چاہتے تھے-

رفتہ رفتہ آزاد کے مذہبی اور سیاسی نظریات بدلتے گئے اور وہ ایک پین اسلامسٹ سے ہندوستانی نیشنلسٹ اور انڈین نیشنل کانگریس کے ممبر بن گئے- کانگریس اور مسلم لیگ کے جھگڑے میں انہیں مسلم لیگ کے ہمدردوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا- وہ اس تمام توہین اور بے عزتی کو برداشت کرتے ہوئے اپنی نیشنلسٹ اپروچ پر ڈٹے رہے جو ان کے خیال میں ہندوستان کے مسلمانوں کے مفاد میں تھی-

بٹوارے کے موقع پر، انہوں نے مسلمانوں سے ہندوستان میں ہی رہنے اور اپنا ثقافتی ورثہ پیچھے چھوڑ کر پاکستان ہجرت نہ کرنے کی اپیل کی- آزادی کے بعد انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے نمایاں اور قابل تعریف کردار ادا کیا-

ویسے آزاد کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انہیں کبھی بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ ان کے سیاسی اور سماجی خیالات تبدیل ہو گئے تھے اور یہ کہ اپنے کیرئیر کے آغاز میں ان سے کیا غلطی ہوئی- اب یہ کام تاریخ دانوں کا ہے کہ وہ آزاد کی شخصیت اور ان کے خیالات کے حوالے سے پڑے اسرار سے پردے اٹھائیں-

انگلش میں پڑھیں

لکھاری: مبارک علی

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (7) بند ہیں

Abid Ali Umang Jun 09, 2014 02:49pm
بہت عمدہ شاندار
Abdul Rauf Khan Jun 09, 2014 04:17pm
آپ میرےخیال سے اُس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں علماء کی سیاست میں مداخلت بالکل بھی پسند نہیں ہے۔مولانا آزاد ایک مُخلص انسان تھے، تحریک خلافت مولانانے شروع نہیں کی،اگر آپ کی بات کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر خود مولانا آزاد نے ہجرت کیوں نہیں کی؟ بدقسمتی سے مسلمانوں کا ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کہ یہ ہمیشہ سے اپنے عہد رفتہ اور خلفائے راشدین کے دور کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اُس وقت ہندوستان کے علماء کی سوچ تھی کہ مارو یا مر جاو، ہندوستان دارلکفر ہے، ان کے نزدیک مسلمان یہاں اپنے عقائد کی حفاظت نہین کر سکتے، لیکن مسلمان ہندوستان میں غیر محفوظ نہیں تھے۔اس بے جا پروپیگنڈا کا شکار عام مُخلص مسلمان ہوئے،انہوں نے عجلت میں اپنی زمین کاروبار بیچا،اور سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کر گئے۔ مسلمانوں کےساتھ ہر قدم پر دھوکہ ہوا،جب یہ ہجرت شروع ہوئی تو بہت سے لوگ راستے میں اپنی جان سے گئے۔ ان مہاجرین کے پاس چونکہ اپنی جائیدادوں کی فروخت سے حاصل شدہ رقم موجود تھی۔ تو جب یہ قافلے افغانستان پہنچے تو اُنہوں نے ان کا استقبال کیا اور کہا کہ ہم اسلام کی خاطر کی گئی آپکی اس ہجرت کو سلام پیش کرتے ہیں، انہوں نے ان کے زخموں پہ مرہم رکھا اور کہا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے ، لہذا آپ لوگ ہماری مدد کریں، ہمیں مناسب رقم مہیا کریں ہم اُس رقم سے اسلحہ خریدیں گے اور آپکی مدد سے پوری دُنیا کو فتح کر کے اسلام کا جھنڈا لہرائیں گے۔اںہوں نے جزبہ جہاد کو جزباتی انداز میں پیش کر کے اسلام کے عشق میں مست ان ہندوستانیوں کو اور جزباتی کردیا اور اپنا مال بھی اسلام کے نام پر افغانیوں کو لُٹا بیٹھے۔ان قافلوں کی قیادت م
syed naseebullah Jun 10, 2014 09:22am
I read some new history facts about AZAD. (Nice)
irfan Jun 10, 2014 12:09pm
only one comment, you don't know the abulkalam azad, he born in mecca on 11 Nov 1888 unlike pakis, he was a non communal muslim his acheivements in post independence are IIT and UGC etc., Thanks Irfan
Me Shocked Jun 11, 2014 02:07am
". . . . . . . آزاد نے زبان کو عربی زدہ کرنے" Mubarak Ali sahib, you just can’t stay away from ARAB-BASHING with continued confused Liberal type mainstream Islam-bashing. You just can’t get enough! “اکبر ملحد یا نہیں تھے بلکہ اس کے برعکس ان کا مقصد تو سچائی کی تلاش تھا-“ You lost the plot again, as Muslims, there is no need for us look for truth in context with you remark about Akbar Mahroom. Azad sahib did leave us with a legacy, a shining star in Mr. Modi’s party - Najma, his grand niece – knowing her you will at least fall in love with the word “AZAD” - birds of same feather flocks together?. Since, you understand the Indian Muslim mind and history so well, you must know Urdu, so why not write in Urdu instead of this Urdu translation, surely, AZAD AND SYED KHAN did not purge English from Urdu?
Me Shocked Jun 11, 2014 03:31am
@Abdul Rauf Khan: Please continue ......... Love to read rest of your comment.
Kala Ingrez Jun 11, 2014 06:52pm
"لکھاری: مبارک علی" Obviously, Azad did not purge out a lot from Urdu language otherwise, here the Dawn newspaper will be referring the columnist as نامہ نگار خصوصی ۔ کالم نگار ۔ کالم نویس ۔ instead of a “لکھاری”. Based on this guy’s original English writings, I would refer to him as a بہیکاری, for his borrowed ideas are the twisted ideas with apologies and a little Brahmin twist. Actually, my brother, Mubarak Ali, is just like me – a KALA INGREZ or as Indian call guys like us , a COCONUT – dark from outside but white from inside.