جمہوریت سے فرق پڑتا ہے

09 ستمبر 2014
لکھاری پیشے کے اعتبار سے بیرسٹر ہیں۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے بیرسٹر ہیں۔

کوئی بھی شخص جو پچھلے کچھ ہفتوں سے اسلام آباد میں جاری واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے، وہ یا تو یہ سمجھے گا کہ جمہوریت کا مطلب مجمعے کو لے کر طویل دھرنے دینا ہے، یا یہ کہ صرف ایک پارلیمنٹ کو منتخب کرنے سے ایک ملک جمہوری ہوجاتا ہے، اور جمہوریت کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے، کہ یہ شخص جمہوریت کو سمجھنے کی اپنی کوشش چھوڑ بھی سکتا ہے، اور کہہ سکتا ہے کہ پاکستان جمہوریت کے قابل نہیں، اور نا ہی یہاں جمہوریت چل سکتی ہے۔

اور یہی وہ سوچ ہے جو سب سے زیادہ نقصاندہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ شخص جمہوریت کو اپنے وجود کے لیے ضروری سمجھنے کے بجائے صرف سیاسی اکھاڑے کا معاملہ سمجھتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے، کہ جمہوریت، اور اس کی غیر موجودگی کا ایک فرد کی ذاتی زندگی پر بھی براہ راست اور نمایاں اثر ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے، کہ جمہوریت کو نا صرف سمجھنا ضروری ہے، بلکہ اس کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے کام کرنا بھی ضروری ہے۔

جمہوریت کا ایک رخ جو ایک فرد کی زندگی پر سب سے زیادہ براہ راست اثر ڈالتا ہے، وہ قوانین میں اصلاحات کا اس کا طریقہ ہے۔ ممالک قانون یا تو خود بناتے ہیں، یا پھردوسرے ترقی یافتہ ممالک کے قوانین اپنا لیتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک دوسرے ممالک سے قوانین اس لیے لیتے ہیں، کیونکہ وہ اکثر ان جگہوں کی پہچان نہیں کر پاتے جہاں قانون سازی اور اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے ملکوں سے قانون لینے کی بھی مختلف شکلیں ہیں۔ یا تو اس میں عوام کو شامل کیا جاتا ہے، یا پھر انہیں اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔

یہ پورا فرق جمہوریت کا ہی ہے۔ ایک حقیقی جمہوری ملک میں رائے عامہ جاننے کے لیے کئی طریقے موجود ہوتے ہیں۔ انتخابات سے پہلے امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں اہم مسائل اٹھا کر عوام کی سپورٹ حاصل کرتے ہیں۔ ایک دفعہ منتخب ہو جانے کے بعد وہ ایوان میں اپنے ووٹروں کی آواز بنتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک بہتر کارکردگی والی جمہوریت میں پارلیمنٹ کے ممبران کو علم ہوتا ہے، کہ دوبارہ منتخب ہونے کے لیے انہیں ووٹروں کو مطمئن کرنا ہوگا۔ اس وجہ سے مجوزہ قوانین اور عوام کی ضروریات میں ایک توازن قائم رہتا ہے۔ اس پوری مشق میں win-win کی صورت حال بنتی ہے، عوام کو ایک ایسا قانون ملتا ہے جسے وہ سمجھتے ہیں اور جسے بنانے میں انہوں نے خود کردار ادا کیا ہے، جبکہ دوسری طرف منتخب نمائندوں کے پاس عوامی حمایت، اور حکومت کے پاس اسے نافذ کرنے کا بہتر موقع ہوتا ہے۔

لیکن یہ مثالی صورت حال ہمارے جیسے معاشرے میں ممکن نہیں ہے، جہاں جمہوریت کا ملمع ان عوام کے سر پر تھوپ دیا جاتا ہے، جو ویسے وڈیرہ شاہی میں دبے ہوتے ہیں۔ وڈیرہ شاہی کی اس قوت کی وجہ سے ظاہری طور پر جمہوری دکھنے والے ادارے بھی ذاتی عقیدتوں اور اطاعت گزاری کی بناء پر اپنے کام انجام دیتے ہیں، اور عوام کو اپنے مفادات کے ایجنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

وڈیرہ شاہی کی عدم موجودگی ہی ہندوستان اور پاکستان میں تمام مماثلتوں کے باوجود ایک بنیادی فرق ہے۔ آزادی کے بعد 67 سالوں میں ہندوستان جمہوری اداروں اور روایات کے قیام اور استحکام میں کامیاب رہا ہے۔ اس لیے اس ملک کا قانونی اصلاحات کا نظام عوام کی شراکت پر مبنی ہے۔

لیکن انہی 67 سالوں کے دوران پاکستان نے منتخب پارلیمنٹ کے ہونے کے باوجود قانونی اصلاحات کو ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ذریعے کرانے کو ترجیح دی۔ اس مرحلے میں بھلے ہی پاکستانی ماہرین کو شامل کیا جاتا ہے، لیکن اس سے عوام کے بڑے طبقے کو نمائندگی نہیں ملتی۔ شاید ان اداروں کے پاس کوئی چوائس تھی بھی نہیں، کیونکہ مطلق العنان حکمرانوں کے راج نے عوام کی رائے کو اس طرح پوشیدہ کر دیا تھا، کہ معنی خیز و تعمیری بحث کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔

وجوہات چاہے جو بھی ہوں، آخر میں نقصان پاکستان کے عام آدمی کا ہی ہے۔ نا صرف یہ، کہ وہ ایسے قوانین کے تحت رہنے پر مجبور ہے جس میں اس کی شراکت نہیں تھی، بلکہ جب ان قوانین کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، تب بھی اسے ہی نقصان ہوتا ہے۔

اس موجودہ سیاسی ہلچل پر بھلے کتنی ہی تنقید کی جائے، پر اس میں جبر و ستم کے اس سایئکل کو ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہے، کیونکہ عوام کو ان کے حقوق سے آگاہ کر کے ہی ہمارے ملک کی نمائشی جمہوریت کو حقیقی جمہوریت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری پیشے کے اعتبار سے بیرسٹر ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

aisha Sep 10, 2014 09:56am
Nice