اسلام آباد دھرنے: آمدنی کا آسان ذریعہ

11 ستمبر 2014
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: اٹھائیس برس کے غلام رسول جو اٹک سے تعلق رکھنے والے ایک دیہاڑی دار مزدور ہیں، ان دنوں دارالحکومت میں جاری ڈبل دھرنوں کے خاصا شکرگزار ہیں کہ انہیں ادائیگی کے ساتھ چھٹیوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل رہا ہے۔

روالپنڈی میں رہائش پذیر غلام رسول پچھلے تین برسوں سے عام طور پر صبح سویرے اپنے کام کی تلاش میں نکل جاتے تھے، تاکہ اپنے گھروالوں کے لیے روزی کا بندوبست کرسکیں۔

انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا ’’میں سیکٹر آئی-10 میں آئی جے پرنسپل روڈ پر بس اسٹاپ کے قریب کھڑا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آج کام ملنا مشکل ہوگا، اس لیے کہ بارش ہورہی تھی۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ تین ہفتے پہلے ان کے دوستوں میں سے ایک نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ڈی چوک پر پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے میں شامل ہوجائیں، اس لیے کہ پی اے ٹی ناصرف شرکاء کو مفت کھانا پیش کررہی ہے، بلکہ مزدوروں کو روزانہ معمولی اُجرت بھی دی جارہی ہے۔

غلام رسول نے بتایا ’’اگرچہ کھانا لینے کے لیے قطار میں کھڑے رہنا دشوار ہوجاتا ہے، لیکن اپنے خاندان کے ماہانہ اخراجات پورا کرنے کے لیے میرے جیسے لوگوں کے پاس یہ واحد راستہ رہ گیا ہے۔ ‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے کام سے چھ سو روپے کی روزانہ اُجرت حاصل کرتے تھے، لیکن یہاں انہیں کوئی کام کیے بغیر چار سو سے پانچ سو روپے حاصل ہوجاتے ہیں۔

غلام رسول نے کہا ’’میں امید کرتا ہوں کہ پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے دھرنے جاری رہیں گے، اس لیے کہ میں یہاں اپنے قیام سے لطف اندوز ہورہا ہوں۔‘‘

ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے چوالیس برس کے رفیق خان بھی غلام رسول کی طرح اسلام آباد میں بطور مزدور کام کرتے ہیں۔

رفیق خان کہتے ہیں کہ وہ عام طور پر سیکٹر جی-9 میں پشاور موڑ کے قریب کام کی تلاش میں جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا ’’اس دن ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی بھی مجھے سے رابطہ نہیں کرے گا، اس لیے کہ پہلے ہی صبح کے دس بج گئے تھے۔ پھر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ایک شخص ایک وین کے ساتھ وہاں پہنچااور اس نے مجھے اور وہاں موجود دیگر مزدوروں کو پی اے ٹی کے دھرنے میں شامل ہونے کی پیشکش کی۔‘‘

رفیق خان نے مزید کہا ’’اس شخص نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ انہیں ایک دن کے چار سو روپے سے پانچ سو روپے تک ادا کرے گا، اور ہمیں زیادہ سے زیادہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی تقریر کے اختتام تک وہاں قیام کرنا ہوگا۔‘‘

اگرچہ وہ اسلام آباد میں مزدوری کرکے وہ جس قدر کماتے تھے اس سے یہ رقم سو روپے کم تھی، لیکن رفیق خان نے یہ پیشکش قبول کرلی، اس لیے کہ انہیں کسی قسم کی مزدوری کا کام نہیں کرنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ رات کے وقت شاہراہِ دستور پر سونے کو ترجیح دیتے ہیں، ان کے مطابق یہ پشاور موڑ سے کہیں زیادہ بہتر ہے، جہاں انہیں عام طور پر فٹ پاتھ پر سونا پڑتا تھا۔

رفیق خان نے دعویٰ کیا ’’ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنا وظیفہ حاصل کرنے کے لیے اپنا شناختی کارڈ پی اے ٹی کے متعلقہ عہدے دار کے پاس جمع کرادیتے ہیں، اور وہ ہمارا شناختی کارڈ ڈاکٹر قادری کی تقریر کے بعد واپس کرتے ہیں۔‘‘

اسی طرح کی ایک مثال چوبیس برس کے سرور عباسی کی ہے، جو روالپنڈی میں پی ٹی آئی کے حمایتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ اکنامکس میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار ہیں۔

انہوں نے کہا ’’میرے دوستوں نے مجھ سے کہا کہ میں ان کے ساتھ روزانہ چار سے پانچ گھنٹے کے لیے پی ٹی آئی کے دھرنے میں چلوں۔ جہاں پی ٹی آئی کے ایک مقامی رہنما نے ہمیں ایندھن جیسے اخراجات پورے کرنے کے لیے پانچ سو روپے ادا کیے۔‘‘

سرور عباسی کا کہنا تھا کہ اس اجتماع میں کچھ وقت صرف کرنا ان کے لیے اچھا ہے۔ وہ موسیقی اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی تقاریر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح انہیں اپنی بے روزگاری کے حوالے سے ان کی مایوسی دور کرنے میں مدد ملی ہے۔

دھرنے کے شرکاء کے مطابق مزدوروں، راج مستریوں، ٹیکسی ڈرائیوروں، مالشیوں اور بے روزگار نوجوانوں کے لیے دھرنے میں شرکت کرنا مفید ثابت ہورہا ہے کہ وہ اپنے ماہانہ اخراجات کے لیے باآسانی رقم کما لیتے ہیں۔

متعدد کوششوں کے باوجود اس پر تبصرے کے لیے پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے ترجمان دستیاب نہیں تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں